انسانی حقوق

خیبر پختونخوا میں خواجہ سراء غیر محفوظ کیوں؟

خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں آج ( 8جنوری) خواجہ سراؤں پر دو حملے ہوئے ، اطلاعات کے مطابق صبح سویرے کیے گئے حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے جبکہ شام کے وقت کیے گئے حملے میں چار خواجہ سرا زخمی ہوئے ہیں۔

خواجہ سراؤں کے مطابق ایک موٹر سائیکل پر دو مسلح افراد نے خواجہ سراؤں پر فائرنگ کرکے موقعے سے فرار ہو گئے ہیں۔
پشاور کے تھانہ فقیر آباد نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اقبال پلازہ میں پیش آنے والے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرکے تفتیش شروع کا آغاز کردیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں پر حملوں اور تشدد کے واقعات کا سلسلہ بہت عرصے سے جاری ہے ، گزشتہ ماہ افغانستان سے تعق رکھنے والے ایک خواجہ سرا کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کا واقعہ بھی پشاور ہی میں پیش آیا تھا، خیبر پختونخوا میں خواجہ سرا کمیونٹی کی رہنما فرزانہ کے مطابق گزشتہ سال 2023 میں صوبے کے مختلف علاقوں میں تشدد کے مختلف واقعات میں 8 خواجہ سرا قتل ہوئے۔
ان کے مطابق قتل کیے گئے خواجہ سراؤں کے مقدمات بھی خواجہ سراؤں پر تشدد مقدمات کی طرح تھانوں میں فائلوں تلے دبے پڑے ہیں ، ان پر کوئی کارراوائی نہیں کی جاتی جسکی وجہ سے خواجہ سراؤں پر حملے کرنے والے اور ہاتھ اٹھانے والے بلاخوف وخطر خواجہ سراوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کے تحفظ

خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ اگر خواجہ سراوں پر تشدد کے واقعات میں پولیس کسی ملزم کو گرفتار کر بھی لے تو کمزور تفتیش کی وجہ سے عدالتوں سے ملزمان کو رہائی ملتی ہے اور وہی لوگ دوبارہ خواجہ سراؤں پر حملہ کرنے سے نہیں کتراتے۔ان کے مطابق خواجہ سراوں کے تحفظ کے لئے موثر قانون سازی کے ساتھ ساتھ قوانین پر عمل درآمد بھی ضروری ہے۔

خواجہ سراؤں کی اپنی کمزوریاں

خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن قمر نسیم کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کے مقدموں میں پولیس کی تفتیش کمزور ہوتی ہے یہاں تک کہ پولیس کے پاس خواجہ سراؤں کا پورا ریکارڈ تک نہیں ہوتا لیکن دوسری جانب نسیم کے مطابق خواجہ سرا بھی مقدموں میں سامنے نہیں آتے گواہیاں نہیں دیتے، وکلاء نہیں کرتے اور اپنے مقدمات کی پیروی نہیں چلتے جسکی وجہ سے زیادہ تر مقدمے منتقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں۔

پولیس کے مطابق پولیس تمام مقدمات میں قانون کے مطابق بیانات، گواہان اور ثبوتوں کے بنیاد پر مقدمے بنا کر تفتیش کرتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کے لئے قانون

قمر نسیم کے مطابق پاکستان میں سال 2018 میں خواجہ سراؤں کے لئے ایک قانون بنایا گیا تھا جو کہ بعد میں وفاقی شرعی عدالت کیجانب سے اس بنیاد پر ختم کیا گیا کہ اس قانون میں کئی دفعات یا شقیں دین اسلام کے متصادم ہے ان کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومت کے پاس 6 مہینے کا وقت تھا لیکن بدقسمتی سے کسی نے اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا، ان کے مطابق اس قانون میں خواجہ سراؤں کو ووٹ، شناختی کارڈ اور دیگر حقوق دیے گئے تھے تاہم وہ حقوق اب نہیں ہے۔

خواجہ سراؤں کے مقدمات میں پولیس کی کمزور تفتیش

خواجہ سراؤں کے قتل، ان پر تشدد اور دیگر مقدمات میں اکثر و بیشتر پولیس پر الزامات لگائے جاتے ہے کہ سہی طرح سے تفتیش نہیں کرتے لیکن پولیس ان الزامات کو مسترد کرکے کہتے ہے کہ وہ قانون کے مطابق تمام مقدمات کو بلاتفریق نمٹاتے ہیں، جبکہ قمر نسیم کا کہنا ہے کہ وہ خود انسانی حقوق کے کمیشن میں خیبر پختونخوا کی کمیٹی کے ممبر ہیں، ان کے مطابق ایک مہینہ پہلے کمیٹی نے خیبر پختونخوا کے اعلی پولیس افسران سے ملاقات کی تھی اور خواجہ سراؤں سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی تھی، قمر نسیم نے کہا کہ اس گفتگو میں پولیس کے طرف سے یہ معلوم ہوا کہ اگر خواجہ سراؤں کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو خواجہ سرا پولیس تھانوں کے سامنے اور دوسرے جگہوں میں احتجاج تو کرتے ہے لیکن تفتیشی عمل شامل نہیں ہوتے جسکی وجہ سے اکثر تفتیش کمزور پڑ جاتا ہے۔

خواجہ سراؤں کا قانون 2018

سال 2018 میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے بنایا گیا، قانون بننے کے ایک سال بعد اس میں ترامیم کی گئی جس کے بعد ملک بھر میں اس پرتنقید شروع ہوئی اور پاکستان کے شرعی قوانین کو دیکھنے والی ادارے پاکستان اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کے حوالے سے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ خواجہ سراؤں کے قانون کے حوالے سے شرعی جاہزہ لیا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ خواجہ سراء اپنے لئے خواجہ سراء کا شناخت کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان و دیگر کئی پارلیمانی ممبرز نے اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا اس معاملے پر 2023 کے مارچ کے مہینے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے طویل بحث کے بعد فیصلہ جاری کیا کہ اس قانون میں کئی ایک دفعات اور شقیں ایسی شامل ہے کہ جو شریعیت کے متصادم ہے۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے بین القوامی تنظیم ایمنیسٹی اینٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں سال 2021 کے اکتوبر سے لے کر ستمبر 2022 تک تقریباً 18 خواجہ سراء قتل کیے جا چکے تھے جو کہ یہ اعداد و شمار ایشیاء میں قتل کیے گئے خواجہ سراؤں کے سب سے زیادہ ہے۔

Back to top button