انسانی حقوق

سوات: رکاوٹوں کو توڑ کر لڑکیاں کھیلوں کے میدان میں کیسے پہنچے؟

پختون معاشرے میں بالعموم خواتین کو گھروں تک محدود رکھا  جاتا ہے ہر چند کہ دنیا کے ساتھ پشتونوں میں بھی خواتین کی تعلیم کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن پھر بھی تمام شعبہ ہائے زندگی میں  مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، اور اسی طرح اگر شہری علاقوں کو دیکھا جائے تو وہاں خواتین کی  شرح  ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ نظر اتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں دور دراز دیہاتی یہ بہت کم ہے اسکی کئی ایک وجوہات ہے جس میں پشتون کلچر اور  اس کے علاوہ وہاں دیگر سہولیات کا  فقدا ن بھی ہے ۔

وادی سوات پختونخوا کا وہ ضلع ہے جہاں پر کئی  سال پہلے طالبانایزیشن کا ایک دور بھی گزرا  ہے جس میں خواتین پر پابندیاں لگائی گئی تھی اور گھروں تک محدود کر دئے گئے تھے اور باالخصوص لٹرکیوں کی تعلیم پر پابندیاں لگائی گئی تھی اور کئی ایک سکول بموں سے اڑائے دیئے گئے تھے۔ سوات میں 2009 کے  فوجی اپریشن کے بعد لٹرکیاں تعلیم اور دیگر شعبوں کے علاوہ کھیلوں کے میدان میں بھی اگے اگئی ہے۔

سوات میں پچھلے سال لڑکیاں کرکٹ کے میدان میں نکل آئے پہلے ان لڑکیوں کے میچ کو علاقائی سطح پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، مقامی پیش امام اور ناظم کے ساتھ کچھ مقامی عمائدین کی جانب سے میچ روکا گیا تھا اور لڑکیوں کے کرکٹ کھیلنے پر علاقے کے روایات کے خلاف غیر مہذب اور نامناسب الزامات لگاے گئے ۔

باوجود علاقائی مزاحمت کے لڑکیوں کے اس کرکٹ میچ کو کلچرل پابندیوں اور دیگر رسومات کے روایات سے لڑکیوں کی ازادی سے تغبیر کیا گیا، سوشل میڈیا پر اس ایشو کو اٹھایا گیا، اس حد تک کہ ضلعی انتظامیہ حرکت میں اگئی اور وہی میچ دو دن بعد منعقد ہوا لیکن ایک سرکاری سکول کے اندر اور ضلعی انتظامیہ کے نگرانی میں کھیلا گیا۔

اس وقت سوات کے مخلتف علاقوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں نے اس اقدام کو سراہا، خوشی کا اظہار کیا اور ائیندہ کے لئے لڑکیوں کے کرکٹ کے لئے ایک مثبت قدم کے طور پر لیا، لیکن یہ سلسلہ پھر اگے نہیں بڑھا۔

خواتین کی حقوق کے لئے کام کرنے والی شاد بیگم جو کہ (فاونڈر وومن وائسسز پاکستان) کی سربراہ ہے، کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ رویہ بہت پہلے سے موجود ہے اور یہ مختلف شکلوں میں سامنے اتی ہے، اگر خواتین ووٹ کا حق مانگتی ہے، تعلیم کا حق مانگتی ہے یا کھیلوں کے حقوق مانگتی ہے ان کو لوگوں، معاشرے اور بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں کی لیڈروں کیطرف سے بھی اس طرح کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کے مطابق لڑکیوں کو ہدف بنایا جاتا ہے ان کے کپڑوں کے اعتبار سے، اور معاشرے میں پہلے سے تنگ نظری بھی موجود ہے۔

شاد بیگم کے مطابق خواتین کے حقوق کے لئے ریاستی اداروں  کو کردار ادا کرنا چاہئے، (میں خود سوات کے لڑکیوں کے لئے خوش تھی کیونکہ ایک بڑے عرصے کے بعد لڑکیاں کھیلوں کے میدان میں نکل آئی، اس طرح کے سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہئے نہ کہ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑے کئے جائیں کیونکہ خواتین معاشرے کی ادھی ابادی ہے)۔

پچھلے سال اکتوبر میں لڑکیوں کے کرکٹ مقابلے کا انعقاد لڑکیوں کے کھیلوں اور تائکوانڈو کے لئے اکیڈمیاں چلانے والے ایاز نائک نے کیا  تھا۔

نائک کے مطابق اس نے اپنے بیٹی تائکوانڈو چیمپئین عایشہ نائک کے اپنے جیب خرچ کے پیسوں سے اس کھیل کا انعقاد کیا تھا، لیکن پہلے اس کے لئے مسائل کھڑے کئے گئے اور بعد میں اس حوالے سے ميڈیا پر خبریں چلنے کے بعد جب ضلعی انتظامیہ حرکت میں اگئی تو مقابلے کا انعقاد ممکن ہوا اور ان کو ضلعی انتظامیہ کی طرف سے باور بھی کرایا گیا کہ ائیندہ کے لئے اس کے ساتھ لڑکیوں کے کرکٹ کے فروغ  کےحوالے سے تعاون کیا جائیگا مگر بعد میں اس کو کوئی خاطرخواہ ردعمل نہیں ملا۔

نائک نے کہا عدم دلچسپی کی وجہ سے کئی لڑکیوں کے دل ٹوٹ گئے لیکن وہ ابھی بھی کوشش کر رہے ہے کہ لڑکیوں کے کرکٹ کےلئے اپنا کردار ادا کریں۔

سوات سے تعلق رکھنے والی گل پری (فرضی نام) نے بتایا ان کا کرکٹ سے دلی لگاؤ ہے وہ اکتوبر والے مقابلے کے لئے بہت جذباتی تھی اور ائیندہ کے لئے اس مقابلے کو ایک مثبت قدم سجھتی تھی لیکن بعد میں ان کے لئے کسی نے کوئی کام نہیں کیا اور ایاز نائک سر اکیلا اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سارےلڑکیاں ابھی بھی منتظر ہے کہ ان کے کرکٹ کے لئے کوئی قدم اٹھائے گا اور لڑکیاں کرکٹ میں اتنی دلچسپی رکھتی ہے کہ کرکٹ کھیلنے کے لئے پشاور جانے کو بھی تیار ہیں۔

سوات میں کھیلوں کے ضلعی افسر عبیداللہ کہتے ہے کہ سوات میں لڑکیوں کے کھیلوں کے لئے جمنازیم موجود ہے وہاں  لڑکیوں کے کئی کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن ضلعی سطح پر کرکٹ ان کے ساتھ کھیلوں میں شامل نہیں ہے۔

ان کے مطابق اگر کسی ادارے یا پاکستان کرکٹ بورڈ کے طرف سے ان کو کہا جاتا ہے تو وہ لڑکیوں کے کرکٹ کے فروغ کے لئے تیار ہے۔

ایاز نائک اور کرکٹ میں حصہ لینے والی لڑکیاں کہتی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئ نے بھی ان سے وعدہ کیا تھا کہ لڑکیوں کے یونیفارم اور دیگر سامان دینے کے حوالے سے کام کریں گے  اب ملالہ نے  لڑکیوں کے تربیتی نشستوں کے لئے  کچھ سامان کا انتظام کر دیا  ہے لیکن لڑکیوں کے کرکٹ کے فروغ کے لئے اب ان کو پاکستان کرکٹ بورڈ ، حکومتی اداروں اور معاشرے کی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ لڑکیوں کے لئے گراؤنڈ ،  کوچ اور مالی تعان کیا جاسکے اور معاشرے میں اخلاقی سپورٹ بھی حاصل ہو۔

 

Back to top button