مادری زبانوں کی بجھتی شمع اور پنجابی کا دکھ
کراچی میں یہ صحافیوں کا ایک اکٹھ تھا۔ بلوچی، سندھی ، پٹھان ،کشمیری اور پنجابی۔ میں نے اس تمام وقت میں ایک چیز شدت سے محسوس کی کہ باقی سب اپس میں اپنی علاقائی زبان میں بات کر رہے تھے مگر ہم دو پنجابی اپس میں بھی اردو ہی کا سہارا لے رہے تھے۔ بچپن سے اب تک پنجابی زبان کے بولنے میں کبھی خود اعتمادی محسوس نہیں ہوئی۔ اس کی بہت بڑی وجہ پنجابی زبان سے برتی جانے والی حقارت ہے۔ پیٹرول پمپ پر گارڈ کے پنجابی بولنے پر ایک ایلیٹ کلاس کی خاتون برہم ہوئیں کہ اپ مجھ سے پہلے تمیز سے بات 8کریں۔ علاقائی یا مادری زبانیں کسی بھی علاقے، قبیلے اور خطے کی پہچان ہوتی ہیں بلکہ ان کی تاریخ کی محافظ بھی۔
ماہرینِ لسانیات کی پیشین گوئی کہ مطابق دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں میں سے 90 فیصد اگلے 100 سالوں میں ختم ہو جائیں گی اور دنیا میں صرف چھ زبانیں رہ جائیں گی۔اگر یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی تو یہ بات ایسے افراد کے لیے بہت بڑی مشکل بنے گی جو صرف ایک زبان بولتے ہیں اور جن کی تاریخ، ثقافتی ورثہ، روایات اور اقدار سب اسی ایک زبان سے جڑی ہوئی ہیں۔اس وقت بھی دنیا میں 40 فیصد لوگ صرف اپنی موروثی مادری زبان بول سکتے ہیں جبکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کی نصف آبادی کم از کم دو زبانیں بول یا سمجھ سکتی ہے۔
دنیا کی زبانوں کٰی کیٹلاگ کے مطابق دنیا بھر میں 6,909 زبانوں میں سے صرف 291 یورپ میں بولی جا رہی ہیں جبکہ 2,197 ایشیا میں بولی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایشیا کو سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں والا براعظم سمجھا جاتا ہے، اس کے بعد افریقہ ہے جہاں تقریباً 2000 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ امریکہ اور اوشیانا میں 1000 ، اور آخر میں یورپ جہاں1بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 291 ہے۔
پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 77 ہے۔ اور یہ تمام زندہ زبانیں ہیں جو ابھی تک زندہ لوگ بولتے ہیں۔ ان میں سے 68 مقامی اور 9 غیر مقامی زبانیں ہیں۔صوبائی زبانوں کے علاوہ کچھ معدوم ہوتی زبانوں میں بلتی، شینا، مارواڑی، کھوار اور دیگر شامل ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں زبان کو ترقی دینے، فروغ دینے اور دستاویز کرنے کے لیے موثر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے پنجابی جیسی بڑی زبان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
پنجابی زبان کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی آج بھی یہ ہو رہی ہے کہ پورے پنجاب میں نہ تو پنجابی زبان میں کوئی اخبار موجود ہے اور نہ ہی رسائل۔بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں لہریہ کے نام سے ایک اخبار پنجابی زبان میں نکلا تھا مگر پھر وہ بھی بند ہو گیا۔ کیونکہ پنجاب حکومت نے اس اخبار کو کوئی اشتہار بھی نہیں دیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پنجاب نے حکومت چلالی لیکن زبان نہیں چلاسکی۔ جب تک حکومت نہیں تھی تب بابا بھلے شاہ، وارث شاہ ،سلطان باہو ،میاں محمد بخش اوربابا فرید کا نام سننے کو ملتا تھا حکومت آئی تو ان کے ناموں کی طرح انکا لکھا کلام بھی گرد میں گم ہونے لگا۔
یہ کچھ وقت پہلے کی بات ہے جب پنجاب اسمبلی میں ایک ایم پی اے نے پنجابی زبان میں بات کرنے کی کوشش کی تو اس کو ڈپٹی اسپیکر نے اسمبلی سے باہر پھینکوا دیا۔ بلوچی میں مست توکلی اورپشتو میں رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک رول ماڈل سمجھے جاتے ہیں مگر پنجابی زبان کا رول ماڈل کون ہے؟
منو بھائی کہا کرتے تھے کہ انسان خواب ہمیشہ اپنی مادری زبان میں دیکھتا ہے۔اسی لیے میرے خواب پنجابی زبان میں ہوتے ہیں۔ منیر نیازی میں پنجاب کی دھرتی کی پیداوار تھے اور طارق عزیز بھی۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ آنے والی نسل ان ناموں سے مکمل نا آشنا ہے جس کی بہت بڑی وجہ ہمارے تعلیمی نظام میں پنجابی زبان کا مضمون کے طور پر شامل نہ ہونا ہے۔ بیرون ممالک میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پنجابی زبان پڑھائی جاتی ہے مگر پاکستان میں یہ مضمون موجود نہیں۔
پنجابی پڑھنے والوں کی تعداد دس فیصد ہے۔ ساہیوال شہر کے ایک پرائیویٹ سکول نے کچھ سال قبل پنجابی زبان کے حوالے سے ایک مراسلہ نکالا۔ اس میں درج تھا کہ پنجابی ایک بدتہذیبی والی زبان ہے اس لیے اس کے بولنے پر مکمل پابندی ہے۔ احتجاج ہوا مگر یہ نظام اب بھی رائج ہے۔ پنجابی زبان کو سب سے بڑا خطرہ خود پنجابیوں ہی سے ہے۔ ورنہ لکھنیں بیٹھیں یا سمجھنے بیٹھیں تو یہ زبان آپ کو تخلیات کی دنیا کی ان وادیوں میں لے جائے کہ آپ پلٹنا بھول جائیں اور محبتوں کی ایسی چاشنی چکھاے کہ زبان باقی ذائقے بھول جائے۔
طارق عزیز نے لکھا ہے
اج دی رات میں کلاں واں
کوئی نہیں میرے کول
اج دی رات تے سوہنیا ربا
نیڑے ہو کے بول