Blog

مریم نواز کی تیسری آنکھ اور ثقافتی بھیڑیے

پاکستان کا آئین عوام کے لیے ایک اہم دستاویز ہے۔ پارلیمنٹ میں آئین کے مقدس ہونے کا فتویٰ قریب قریب ہر پارلیمنٹیرین نے دے رکھا ہے مگر خود کی گئی دست درازی پر آئین کے مقدس ہونے کا سوال ہمیشہ گول کر دیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی نقل میں اور جدید عہد کی ضرورتوں نے یہاں کے عوام کو اقتباسی طور پر کئی حقوق کا حق تو دے رکھا ہے مگر اس پر کئی پہرے دار بٹھا دئیے ہیں۔

اب یہ پہرے دار نوری ہوں، ناری ہوں یا خاکی اس کے بارے میں عظیم اقبال کی بھی کوئی رائے نہیں۔ قریب ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے اور ادھر معلومات تک رسائی کے آئینی حقوق کی راہ میں بسا اوقات عدلیہ خود حائل ہو جاتی ہے۔ کسی بھی درخواست گزار پر ذاتی حملہ آور ہونے کا الزام دہشت گردوں کی طرح لگانا نوکر شاہی کے کلرکوں کی عام عادت ہے۔ ملکی سطح پر موجود انفارمیشن کمیشن کا قائم ہونا شاید اقوام متحدہ کے سامنے مہذب پن کی کسی کرسی پر براجمان ہونا ہو لیکن آج کی گھڑی تک قانون اور قاعدہ کے مطابق عوام تک معلومات کی رسائی کے عمل کو کتنا آسان رکھا گیا ہے اس کا اندازہ عدالتوں اور انفارمیشن کمیشن میں دی جانے والی درخواستوں سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔

سرکاری بابو کی دیکھا دیکھی نام نہاد دانشور استاد بھی اپنی چادر دیکھے بغیر پاؤں باہر پھیلا چکا ہے۔ تعلیمی اداروں پر گردنوں میں سریا ڈالے نام نہاد استاد مسلط کر دئیے گئے ہیں ۔ انتظامی آسامیوں پر دیر تک ان کی تعیناتی انہیں فراعینِ مصر کا حصہ بنا چکی ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے حوالے سے کچھ خبریں گردش کر رہی ہیں تو دوسری طرف انفارمیشن کمیشن پنجاب پر ان کے اپنے محکمے اطلاعات و ثقافت سے معلومات نہ دئیے جانے پر توہین عدالت کا بھی سامنا ہے۔ جب محکمہ اطلاعات و ثقافت خود اطلاعات تک رسائی میں دشواریاں پیدا کرے اور تو اور کئی ایک جگہ پر جعلی اور ٹیمپرڈ معلومات دینے کے الزام کی زد میں ہو وہاں کیا کیا جائے؟

یہ وہی انفارمیشن کمیشن ہے جنہوں نے فرحت جبیں اور ذوالفقار زلفی کے حوالے سے الحمرا لاہور آرٹس کونسل میں ہونے والے کچھ مالی معاملات کی معلومات کے حوالے سے رپورٹ اور حکم صادر فرمایا تھا مگر سچ سامنے آنے کے باوجود بڑی مچھلیاں ہمیشہ ساز باز کر کے رستہ لے لیتی ہیں۔ اپنے اس موجودہ دور میں انفارمیشن کمیشن یقینی طور پر ایک امید کی کرن ہے تو دوسری طرف جانبداری ، تعصب کے الزامات کا بھی سامنا کر رہا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ محکمہ اطلاعات و ثقافت کے متعلقہ اداروں کے وہ سربراہان ہیں جو آرٹیکل 19A کے تحت دئیے جانے والے عوامی حقوق پر قدغن لگا رہے ہیں۔ ادارہ پنجاب آرٹس کونسل میں گزشتہ دنوں میں ہونے والی غیر قانونی بھرتیوں اور اختیارات سے تجاوز کی کہانی زبانِ زد عام ہے اور اس معاملے میں مسندِ اعلی پر بیٹھے نفسیاتی کلرک کے کئی بونے سہولت کار ہیں جو حیلے بہانے کر کے قانون میں دئی گئی ہر معیاد کو گزارنے کا فن جانتے ہیں۔

کس کس کا نام لیا جائے کہ یہ کہانی پرانی ہے۔ کسی بھی اخبار کے مالک کی طرف سے ڈی جی پی آر کے متعلق مانگی گئی معلومات کا اختتام عمومی طور پر کوئی ڈیل ہی تصور کی جاتی ہے اور یہی وہ تہذیبی متروک رائج الوقت لفظ ڈیل ہے جس نے انفارمیشن کمیشن کے کردار کوبادی النظر میں متنازعہ بنا دیا ہے لیکن محکمے کے سربراہ ہو یا انفارمیشن کمیشن ایسا لگتا ہے کہ یہ معلومات چھپانے کے عارضے کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نمائندہ وزیر اطلاعات بھی ان کی دی گئی نامکمل معلومات ،جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ریکارڈ کا شکار نظر آتی ہیں وگرنہ زیرک قانون دان اور نڈر عظمیٰ بخاری اس نوکر شاہی کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیتی۔ حادثاتی طور پر کسی بھی وزیر کی کرسی کی ایکسپائری تاریخ ہوتی ہے جبکہ نوکر شاہی کے ایکسپائر نظام کی کوئی ایکسپائری تاریخ نہیں اور اب تو نوکر شاہی کی شکل والے گردنوں میں سریا ڈالے نام نہاد استاد ،ڈاکٹر انتظامی آسامیوں پر براجمان ہیں جنہوں نے اقربا پروری، ذات پات، تعصب، جانبداری اور انا کو فروغ دینے کے لیے بورڈز اور سینڈی کیٹس میں وقت کے اعلی منصفوں کی سہولت کاری سے وطن عزیز کا بیڑہ غرق کر رہےہیں۔

یہ کیسا نظام ہے کہ جہاں قانون کی کتاب انگریز دور سے نہیں بدلی مگر چہرہ یا کمرہ بدلنے سے فیصلے بدل جاتے ہیں۔ پنجاب انفارمیشن کمیشن کے مدبر منصفوں کو چاہیے کہ نوکر شاہی کی نوری یا خاکی مخلوق کی طرف داری کی بجائے آئین اور قانون کی بالا دستی کا عَلم سر بلند کرتے ہوئے معلومات تک رسائی میں رکاوٹ بننے والوں کو قانون کے مطابق کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔

یہ نہ ہو کہ ہر دفعہ پنجاب آرٹس کونسل کا نفسیاتی کلرک تو سزا سے محفوظ رہے اور سارے فرحت بخش فیصلے محکمہ اطلاعات و ثقافت تک محدود رہیں اور دوسری طرف نسلی تفاوت، اقربا پروری اور جانبداری سے بھرے کئی دہائیوں سے گردن میں سریا ڈالے وائس چانسلر کی سیٹ پر مسلط نام نہاد استاد کو جرمانہ کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی رہے۔ عوام اپنےنمائندوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ اپنے محکمے پر توجہ دیں یہاں ثقافتی بھیڑیے بھی ہیں اور اطلاعات کے چور بھی۔ آپ مریم نواز کی تیسری آنکھ ہیں انہیں بتائیں کہ جرائم پیشہ نوکر شاہی یا مدرسوں کے ناموں کے ساتھ لگے نسلی سابقوں سے مرغوب نہ ہوں وگرنہ عوامی تاریخ جو حال عوامی نمائندوں کا کرتی ہے اس سے یہ کڑچھے چمچے منصفوں کی سہولت کاری کے ذریعے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئین مقدس ہے یا متنازعہ نسلی سابقے ,لاحقے؟

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

Back to top button