انسانی حقوقخبریں

ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن ایکٹ پر ہنگامہ کیوں ہے؟

گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈر رائٹ پروٹیکشن ایکٹ کے خلاف مہم جاری ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان اس ایکٹ کو جواز بنا کر موجودہ حکومت پر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن یہ ایکٹ تو درحقیقت یہ ایکٹ مئی 2018 میں پاس ہوا تھا ، اس ایکٹ کے خلاف اسلامی نظریاتی کونسل سے نے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا تھا تاہم یہ ایکٹ عوامی حلقوں میں اس وقت موضوع بحث بنا جب جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اس کے خلاف ایوان بالا یعنی سینٹ میں آواز اٹھائی اور اس میں ترمیم کےلئے بل پیش کیا، سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں اس بل سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ اس قانون کے تحت ایک مردسرجی کی صورت میں یا بغیر سرجری کی صورت میں خود کو عورت تسلیم  کراسکتا ہے، اور عورت خود کو مرد تسلیم کرسکتی ہے،  یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

اس سے ہوگا یہ کہ ایک فرد بائیولاجی کلی مرد ہوگا لیکن اس کے خیالات عورتوں جیسے ہوگے تو وہ خود کو عورت کے طور پر رجسٹرڈ کراسکے گا، اس سے معاملہ ہم جنس پرستوں کی شادی کی طرف جائے گا۔ یہ ایکٹ اسلام کے قانون وراثت کے بھی خلاف ہے۔

انہوں نےمزید کہا کہ برطانیہ کی جینڈر ریکنجی نیشن ایکٹ میں بھی   جنس تبدیلی کے بعد دو سال تک اس کی درخواست زیرالتوا رکھی جاتی ہے تاکہ وہ سوچ لے اور پھر فیصلہ کرے۔

سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کئے گئے ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس وقت کی وفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری نے کیاموقف اختیار کیا اور کہا کہ جنس کا تعین ذاتی معاملہ ہےخواجہ سرا کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اپنی جنس کا خود تعین کرے، یہ قانون جو گزشتہ حکومت نے بنایا تھا اسے پوری دنیا میں پسند کیا گیا ہے۔ میڈیکل بورڈ بنانے سے مسلے پیدا ہوں وہاں پیسے چلیں گے اور لوگوں کی حق تلفی ہوگی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں ہونی والی بحث:

سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کیا گیا ترمیمی بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بحث کے لئے بھیجا گیا ہے ، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس 5 ستمبر کو منعقد ہوا تھا جس میں سینیٹر مشتاق احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ خواجہ سرا اور ہم جنس پرست میں تفریق ضروری ہے ، اپنے جنس کے تعین کا اختیار دینے سے معاشرے میں ہم جنس پرستی فروغ پائے گئی لہذا جنس کے تعین کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے اور اگر کوئی خود کو ٹرانس جینڈر کے طور پر رجسٹر کرانا چاہتا ہے تو یہ میڈیکل بورڈ ان کا معائنہ کرے اور اگر وہ واقعی خواجہ سرا ہو تو اسے ٹرانس جینڈر کے طور پر رجسٹر کیا جائے۔

کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر رابعہ آغا نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل بورڈ کے ذریعے جنس کے تعین کا تجربہ انڈیا میں ناکام ہوچکا ہے اور یہ انسان کی پرائویسی کے خلاف ہے اس لئے میڈیکل بورڈ کے ذریعے جنس کا تعین کرنا درست نہیں ہے۔

کمیٹی نے  آئندہ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کےنمائندوں سے رہنمائی لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اجلاس موخر کردیا تھا۔

وفاقی شرعی عدالت کی کاروائی:

دوسری جانب وفاقی شرعی عدالت میں بھی 20 ستمبر کو اس بل کی مخالفت میں دائر کئے گئے کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران خواجہ سراوں کی کثیر تعداد کورٹ روم میں موجود تھی، سماعت کے دوران خواجہ سرا کمیونٹی کے رہنماوں نے کورٹ سے استدعا کی کہ اس کیس کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے جینڈر ایکسپرٹ یعنی جنسی ماہرین کی رائے کو ضرور سنا جائے ۔

جس پر جسٹس محمد انور نے کہا کہ ہمارا مقصد خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ ہے اور ہم انہیں ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے  لیکن کسی بھی معاملے پر آنکھیں بند کرلینے سے مسلہ حل نہیں ہوجاتا۔

کیس کی سماعت کے موقع پر خواجہ سرا کمیونٹی کی رہنما الماس بوبی، پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر و دیگر بھی موجود تھے، وفاقی شرعی عدالت نے الماس بوبی اور سینیٹر مشتاق احمد کی اس کیس میں فریق بننے کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے انہیں و دیگر کو اپنا تحریری موقف آئندہ سماعت تک جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوتے کیس کو غیر معینہ مدت تک کے لئے ملتوی کردیا۔

سینیٹر مشتاق احمد کے ترمیمی بل میں کیا سفارشات کی گئی ہیں۔

سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پیش کئے گئے ترمیمی بل میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ جنس کا تعین کرنے کے لئے ہر ضلع میں پروفیسر ڈاکٹر، ایک ماہر نفسیات یعنی سائیکالوجسٹ، ایک مرد جنرل سرجن، ایک خاتون جنرل سرجن اور ایک چیف میڈیکل آفیسر پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے، جنس تبدیلی سے قبل یہ بورڈ معائنہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ جاری کرے گا جس سے جنس تبدیل کرنے والے شخص کے جنس کا تعین ہوگا۔

یعنی یوں محض ظاہری علامت، یا خواہش پر کسی شخص کی جنس تبدیل نہیں ہوگی۔

ترمیمی بل میں جنس تبدیل کرنے کےلئے کی جانے والی سرجری اور دیگر طبعی طریقہ کار پر بھی پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

نادرا کو جنس تبدیلی کی 28 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں۔

گزشتہ سال ایوان بالا میں سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے بتایا کہ نادرا کو سال 2018 سے جون 2021 تک جنس تبدیلی کے لئے 28 ہزار 500 درخواستیں موصول ہوئی ہیں  جن میں سے 16 ہزار 500 افراد نے اپنے جنس مرد سے عورت میں تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی جبکہ 12 ہزار خواتین نے خود کو مرد رجسٹر کرانے کےلئے درخواستیں دی ہیں۔

نادرا کو 9 افراد نے اپنا جنس مرد سے خواجہ سرا اور 21 خواجہ سراوں نے اپنا جنس خواجہ سرا سے مرد میں تبدیل کرنے کی درخواست کی ہیں، جبکہ 9 خواجہ سراوں نے اپنا جنس تبدیل کرکے عورت رجسٹر کرانا چاہئے ہے۔

Back to top button