خبریں

ملاکنڈ میں نئے ٹیکسیز کا نفاذ، اثرات اور مخالفت

ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسیز کے نفاد کے خلاف ٹریڈر ایسوسی ایشن، سیاستدان، وکلاء، پرائویٹ سکولز ایسوسی ایشن اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ سراپا احتجاج ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں انکم ٹیکس اور کسٹم ٹیکس نافذ نہ کیا جائیں کیونکہ ملاکنڈ کے عوام پہلے سے ترقی سے محروم، بدامنی کے شکار اور موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب جیسے قدرتی آفتوں سے متاثر ہیں۔

منگل کے روز ملاکنڈ کے ٹریڈ یونین کیطرف سے پورے ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسیز نافذ نہ کرنے کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی، ملاکنڈ ڈویژن کے نو اضلاع سوات، بونیر، شانگلہ، لوئر چترال، اپر چترال،دیر لوئر، دیر اپر، باجوڑ  اور ملاکنڈ میں تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند تھیں، نجی تعلیمی اداروں کے ایسوسی ایشن کیطرف سے تمام تعلیمی ادارے بھی بند کیے گئے تھیں اور پشاور ہائی کورٹ بار کے ملاکنڈ میں وکلاء نے بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے تھے۔

شٹر ڈاؤن ہڑتال کے حوالے سے ملاکنڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر عبدالرحیم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملاکنڈ ڈویژن کے تاجر اور عام عوام ٹیکسز کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں نئے ٹیکسز لاگو نہ کیے جائے۔

انہوں نے کہا کہ شٹر ڈاؤن ہڑتال تاجروں کیطرف سے ٹیکسز کے خلاف تحریک کا پہلا مرحلہ ہے دوسرے مرحلے میں اس سے بھی زیادہ سخت اقدام اٹھائینگے۔

شٹرڈاؤن ہڑتال کے حوالے سے اس سے پہلے تاجروں نے کہا تھا کہ انکم ٹیکس اور کسٹم ٹیکس نافذ کیے جانے کیوجہ سے نہ صرف تاجر یا کاروباری طبقہ متاثر ہوگا بلکہ عام عوام پر بھی اس کا بوجھ آئیں گا۔

ضلع سوات میں ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر ذاہد خان نے کہا کہ پہلے ریاست سوات اور پھر ملاکنڈ ڈویژن کو پاکستان کے آئین میں ٹیکسز سے استثنیٰ حاصل تھا پھر بعد میں جنرل یحیٰ خان نے ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے زریعے غیر قانونی اقدام کیا تھا لیکن عوام کے سخت احتجاج کے بعد 1972 کے عبوری آئین اور پھر 1973 کے آئین میں بھی ارٹیکل 246 اور 247 کے تحت ملاکنڈ کا خصوصی حیثیت بحال رکھا گیا تھا، باوجود یہ کہ جب ریاست سوات کا پاکستان میں ادعام ہوا تھا تو اس وقت پاکستان نے ملاکنڈ ڈویژن کو بہت سارے ترقی دینے کی وعدے کیے تھے لیکن ریاست سوات کے دور میں جہانزیب کالج اور جو بڑے سکول بنے تھے نہ تو ابھی تک جہانزیب کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے اور نہ ہی نئے سکول بنائیں گئے ہیں۔

ان کے مطابق یہاں تک کہ سوات ریاست نے جو ہوائی آڈہ بنایا تھا اس کو اپگریڈ کرنے بجائے اپریشنل بھی نہیں رکھا گیا ہے بلکہ ایک بڑے عرصے سے مکمل طور پر بند ہے۔

ذاہد خان نے کہا کہ بدقسمتی سے سوات میں بدامنی کی لہر آئی اور تقریباً 30 لاکھ تک لوگ بے گھر ہو گئے ملاکنڈ کے عوام نے پاکستان کی بقاء کے لئے قربانیاں دی اور اس کے بعد سوات کے عوام کے لئے دنیا نے جو امداد دیئے وہ بھی سوات اور ملاکنڈ کے عوام پر خرچ نہیں کیے گئے اور بعد میں جب سیلاب آئے تو سوات کی واحد سیاحتی امدن کا زریعہ سڑکیں سیلاب کے نظر ہوئے اور لنڈاکی سے لیکر کالام تک کے سڑکوں کے لئے جو 23 ارب روپے کا جو بتایا جاتا ہے کہ منظور ہوئے تھے اس میں سے صرف 5 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔

ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر نے مزید کہا کہ بجائے اس کے کہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں ترقیاتی کام کیے جاتے 2018 میں 25 ویں آئینی ترمیم کے زریعے فاٹا انضمام کیساتھ پاٹا کو بھی صوبے میں ضم کیا گیا اور آئین میں دیئے گئے ملاکنڈ کے خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا اور اس علاقے کو تمام ٹیکسز کی توسیع دی گئی۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حکومت کے مخالفین سیاسی جماعتیں الزام لگاتے ہے اور تنقید کرتے ہے کہ اس جماعت نے 2018 میں قومی اسمبلی میں 25 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے تھے بلکہ قومی اسمبلی سے اس ترمیم کو پاس کرنے کے دو دن بعد تحریک انصاف کے حکومت نے خیبرپختونخوا اسمبلی میں اکثریت سے اس قانون کو پاس کیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کے حکومتی نمائندوں نے اس قانون کو پڑھا بھی نہیں تھا کہ اس کے نتیجے میں ملاکنڈ میں عوام پر نئے ٹیکسز نافذ ہونگے، باوجود یہ کہ اس وقت کچھ سیاسی جماعتوں نے فاٹا اور پاٹا میں اس انضمام کے بعد کئی مسائل پیش آنے کی نشاندہی کی تھی۔

اس وقت بھی تقریباً ساری سیاسی جماعتیں ملاکنڈ میں نئے ٹیکسیز کی مخالفت کرتے ہوئے اس تحریک کا ساتھ دینے کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں اور کہتے ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے فورمز پر اس کے خلاف آواز اٹھائینگے۔

دوسری طرف اس وقت خیبر پختونخوا میں حکومت کرنے والی جماعت تحریک انصاف کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران نے بھی اس نئے ٹیکسیز کی مخالفت کی ہیں بلکہ اس کے خلاف اسمبلیوں میں آواز اُٹھانےکی بھی بات کی ہیں۔

قانونی اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملاکنڈ میں پہلے سے کئی ٹیکسیز نافذ تھے لیکن عملی نہیں تھیں۔ سیلز ٹیکس پہلے سے ہر چیز میں وصول کیا جاتا تھا، انکم ٹیکس کی ملاکنڈ میں کوئی بڑا زریعہ نہیں ہے اور کسٹم ٹیکس جو 25 ویں آئینی ترمیم میں ختم کیا گیا ہے اس وقت اگر ملاکنڈ میں نافذ کیا جاتا ہے تو اس کا اثر سب سے زیادہ عام عوام پر ناکسٹم پیڈ گاڑیوں کی صورت میں ہوگا جو کہ یہ گاڑیاں ملاکنڈ میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس وقت ٹیکسیز کا خاتمہ آئینی اعتبار سے اتنا اسان نہیں ہے لیکن صوبائی اور مرکزی حکومتیں اگر چاہے تو ملاکنڈ کو ٹیکسیز سے استثنیٰ دے سکتے ہیں۔

Back to top button