Blogانسانی حقوق

بہتر حکمت عملی اور عوام کا سنجیدہ روئیہ : 2014 کے بعد سے سوات میں کوئی پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا

’’میری عمر ابھی دو سال سے بھی کم تھی کہ مجھ پر پولیو وائرس نے حملہ کردیا اوریوں میں عمر بھر کے لئے معذورہوگئی۔ اگر مجھے وقت پر پولیو سے بچاؤکے قطرے پلوائے جاتے تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اور نہ ہی لوگوں کی باتیں سننی پرتیں اور میں بھی باقی لوگوں کی طرح معمول کی زندگی گزارتی”

یہ کہانی ہے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والی 33 سالہ نازیہ کی ، جسے بچپن میں پولیو سے بچاؤکے قطرے نہ پلوائے جانے کی وجہ سے ہمیشہ کی معذوری کا سامنا ہے ۔ نازیہ کہتی ہے معذوری بہت بڑی  آزمائش ہے اور آج اس کی وجہ سے مجھے اپنی زندگی میں بہت مسائل اورمشکلات کا سامنا ہے۔

وہ  کہتی ہے کہ معذور ہونے سے مجھے اپنی سہیلیوں اور خاندان والوں سے بھی بہت ساری منفی باتیں سننے کو ملتی ہیں بعض اوقات تو گھر میں رشتوں کے لئے آنے والی خواتین کی نظر میں بھی ہم معذور لوگ بہت برے ہوتے ہیں اور کوئی اسانی سے  معذور سے شادی کے لئے بھی راضی نہیں ہوتیں۔

وہ کہتی ہے کہ مجھے بچپن ہی سے پائلٹ اور ڈاکٹر بننے کا بے حد شوق تھا مگر میری معذوری نے میرا یہ خواب  شرمندہ تعبیر نہیں کیا۔ وہ آج بھی پر امید ہے اور کہتی ہے کہ آج کل میں جہاں نوکری کررہی ہوں اس میں مجھے خوشی بھی ہے اور میں اپنے بہترمستقبل کے لئے بھی کوشاں ہوں۔

خیبر پختونخوا میں کتنے پولیو کیسسز رپورٹ ہوئے؟

پاکستان انسداد پولیو پروگرام کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا میں  پولیو کیسز میں اب نمایاں کمی آئی ہے۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل کی گئیں معلومات کے مطابق  سال 2015میں پولیو کے 35 کیسز رپورٹ ہوئے،  سال 2016میں11  کیسز جبکہ سال 2017میں اس میں نمایاں کمی آئی اورصرف ایک کیس رپورٹ ہوا اسی طرح سال 2018میں پھر یہ تعداد زیادہ ہوگئی اور پولیو کیسسز 8 تک بڑھ گئے۔

سال 2019میں پولیو کیسسز مزید بڑھ گئے  اورپولیو کے109 کیسز رپورٹ ہوئے۔ سال 2020میں پھر پولیو کیسز میں کمی آئی اورصرف  64 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ رواں سال2021میں اب تک صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

سال 2019 میں پورے خیبر پختونخوا میں 14 ایسے ضلعے تھے جو پولیو کیوجہ سے ہائی رسک پر تھے جس میں بنوں پہلے نمبر پر تھا جس میں پولیو کے 26 کیسز رپورٹ ہوئے اس کے علاوہ لکی مروت دوسرے نمبر پر تھا جس میں 32 تک پولیو کیسز رپورٹ ہوئے اس کے علاوہ ہنگو،ڈی ائی خان،شانگلہ،تورغر،چارسدہ،باجوڑ،خیبر،نارتھ وزیرستان، ساؤتھ وزیرستان،ٹانک، صوابی اور مومند بھی شامل ہیں جس میں مجموعی طور پر 93 کیسز رپورٹ ہوئے۔

سال 2020 میں یہ تعداد کم ہو کر صرف چھ ضلعوں تک محدود ہو گئی جس میں لکی مروت پہلے نمبر پر رہا جس میں پولیو کیسز کی تعداد 12 رہی اس کے علاوہ بنوں، کرک، پشاور، ٹانک اور ساؤتھ وزیرستان بھی پولیو کیسز کے لپیٹ میں تھے جس میں مجموعی طور پر 22 کیسز رپورٹ ہوئے۔

سال 2021 میں اب تک صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جو خیبر پختونخوا کے نوشہرہ ضلعے میں رپورٹ ہوا ہے۔

محکمہ صحت کے ضلعی آفیسر کے مطابق 2014سے اب تک سوات میں پولیو کیس رپورٹ نہیں ہوا

محکمہ صحت سوات کے ضلعی آفیسر ڈاکٹر محمد سلیم خان کے مطابق 2014سے اب تک ضلع سوات میں کوئی کیس سامنے نہیں ایا ہے جو کہ کامیاب مہم کا نتیجہ ہے انہوں نے کہا کہ ہر مہم کا دورانیہ پانچ دن کا ہوتا ہیں جس کے دوران مختلف ٹیمیں تین دنوں کے مسلسل مہم کے دوران پولیو قطرے پلانے کا مہم ہوتا ہے اور اس میں گھر گھر جا کرپانچ سال سے کم عمرکے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے جاتے ہیں اور پھر باقی دو دنوں میں ہمارا پولیو ٹیم دوبارہ ان علاقوں میں جا کر دوبارہ مہم چلاتے ہیں جس میں اگر کوئی بچہ کسی بھی وجہ سے قطرے پینے سے رہ گیا ہو تو دوبارہ ان بچوں کو قطرے پلوائے جاتے ہیں۔

سلیم کے مطابق پانچ روزہ مہم کے بعد مانٹرنگ کے لئے پھر ڈبلیو ایچ او کے نمایندے بھی گھر گھر جا کر معلومات لیتے ہیں کہ کوئی بچہ پولیو قطرے سے رہ تو نہیں گیا اگر ان کو بھی کسی جگہ پر یہ معلومات حاصل ہو جاتی ہے تو ہم پھر اپنے ٹیم کو بیجھوا کر ان بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں۔

اگر کسی بچے کے والدین انکار کریں تو اپ کا ادارہ پھر کیا کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سلیم نے بتایا اگر کوئی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے منع کرتا ہے تو پھر ہم اس شخص کے بارے میں ڈی سی کو رپورٹ کرتے ہیں پھر وہ اس کوبلا کے پولیو کے خصوصیات کے بارے میں اگاہ کرکے اس بچے کو قطرے پلواتے ہیں۔

ڈاکٹر سلیم کے مطابق گزشتہ پولیو مہم کے دوران ضلع سوات میں 339000بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے گئے  جبکہ پانچ روزہ مہم میں  1827ٹیموں نے گھر گھر جاکر مہم میں حصہ لیا۔

سوات میں 2014 سے کوئی کیس رپورٹ کیوں نہیں ہوا اس کے کیا وجوہات ہے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر سلیم نے کہا کہ یہ کامیاب مہم کا نتیجہ ہے اس مہم کے لئے ہم پہلے سے ٹیم کو تیار کرتے ہیں ان کو ٹریننگز دیتے ہیں تاکہ مہم کے دوران کوئی بھی بچہ رہ نہ جائے ۔ اس کے علاوہ ہم مختلف اگاہی مہم بھی چلاتے ہیں جس میں ہمارے نمایندے بھی والدین کو پولیو کی افادیت کے بارے میں اگاہ کرتے  اور اس کے علاوہ میڈیا کے زریعے بھی لوگوں کو اگاہ کیا جاتا ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کی پولیو مہم کے حوالے سے زمہ داریاں

ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان جو ضلع سوات میں پولیو مہم کے سربراہ  ہے اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ سوات میں پولیو مہم ُ کی نگرانی میں محکمہ صحت کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں ہوتا ہے۔ مہم سے پہلے اور مہم کے دوران تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور ایڈیشنل کمشنرز مہم کے کارروایوں کے نگرانی میں مصروف رہتے ہیں۔ سیکورٹی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پولیو میں کام کرنے والے تمام ورکروں کو سیکورٹی فراہم کی جا تی ہے۔ پولیو کنٹرول روم کے طرف سے مکمل تفصیلات ڈی پی او آفس بھیجی جاتی ہیں جسکے مطابق تمام ورکروں کو سیکورٹی دی جاتی ہے۔

جنید خان کہتے ہے کہ پولیوں ورکرزپرحملوں کے حوالے سے حالیہ دنوں میں ایسی کوئی رپورٹ موصو ل نہیں ہوئی۔ تا ہم ضلعی انتظامیہ پولیو سیکیورٹی کے حوالے سے ہر وقت الرٹ رہتی ہیں تا کہ کیسی بھی نا خوشگوار واقعہ کو بر وقت رسپانس دیا جا سکے۔ڈپٹی کمشنر نے میڈیا کے حوالے سے کہا کہ انتظامیہ وقتا فوقتا پولیو ایکٹیو ٹیز کے حوالے سے میڈیا کے ساتھ رابطے میں رھتی ہے تا کہ عوام کو بروقت اطلاعات پہنچائے جا سکے۔ میرے خیال میں میڈیا کو غیر جانبدار رہ کے رپورٹنگ کرنی چاھئے۔ ھمیں صحافیوں کے مشکلات کا اندازہ ہے اور ہمارے طرف سے صحافیوں کے ساتھ بھرپور تعاون ہوگی۔

جنید خان نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے میں علما کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے-پولیو کے بارے میں علما کے بیان کو بہت غور سے سنا جاتا ہے اور اس پہ عمل بھی کیا جاتا ہے ڈپٹی کمشنر نے اپنے پیغام میں کہا کہ پولیو ایک لاعلاج مرض ہے اور اس سے بچنے کاُواحد ذریعہ پولیو کے دو قطرے ہیں لہذا جب بھی پولیو مہم ہو تو پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے میں ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں  تا کہ آپکے بچوں کو محفوظ کیا جا سکے۔

پولیو کیا ہے؟

پولیوومیلائٹس (پولیو) ایک انتہائی متعدی وائرل بیماری ہے، جو بنیادی طور پر چھوٹے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ پولیو وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے اور بنیادی طور پر منہ سے زبانی راستے سے، ایک عام گاڑی، جیسے آلودہ پانی یا خوراک سے پھیلتا ہے۔ اس کے بعد پولیو وائرس آنت میں بڑھ جاتا ہے، جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ کر کے فالج کا سبب بن سکتا ہے۔

پولیوکی ابتدائی علامات

پولیو کی ابتدائی علامات میں بخار، تھکاوٹ، سر درد، قے، گردن میں اکڑنا اور اعضاء میں درد شامل ہیں۔ بہت کم معاملات میں بیماری فالج کا سبب بن سکتی ہے جو اکثر مستقل ہوتا ہے۔ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے اور اسے صرف حفاظتی ٹیکے لگا کر ہی روکا جا سکتا ہے۔

پولیو مہم میں صحافیوں کے مشکلات

گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں انسداد پولیو ویکسین کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف پولیو ٹیموں بلکہ اس کے حق میں بولنے والوں کو بھی شدید دقت کا سامنا ہوتا ہے۔پولیو کے بارے میں رپورٹ کرنے کے حوالے سے جب ریڈیو سوات کے سٹیشن مینیجر رحیم اللہ شاھین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں مختلف اوقات میں ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے پر یا پولیو ویکسین کے حق میں لکھنے پر صحافیوں کومسائل کا سامنا ہوا اورمخصوص مذہبی طبقہ، بلکہ عوام اور کچھ انتہاپسندوں  کی جانب سے بھی دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔یہی نہیں بلکہ  تعلیم یافتہ طبقے کا ایک خاص حصہ بھی اس مہم کی مخالفت کرتا آرہا ہے۔

شاہین کا کہنا تھا کہ یہاں دہشت گردی کی لہر کے دوران تو کوئی پولیو ویکسین کا نام بھی نہیں لے سکتا تھا اور اعلی الاعلان مساجد اور دیگر مقامات پر پولیو ویکسین کی مخالفت میں تقاریر بھی کی جاتی تھیں۔ اس حوالے سے صحافی بھی انسدادپولیو مہم کی  کوریج نہیں کرسکتے تھے۔ساتھ ہی پولیوکے قطرے زندگی ہیں اس حوالے سے لکھنا بھی ڈراؤنا خواب بن گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ بھی صحافیوں کو اس مہم کی کوریج سے بارہا منع کر چکی ہے، کیونکہ حکام کے بقول اس سے ورکرز اور صحافیوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔انتظامیہ نے خود کئی سال تک انسداد پولیو مہم خفیہ طور پر چلائی  تاکہ ورکرز کی جان محفوظ رہے اور صحافیوں کو بھی محتاط انداز سے کوریج کے مواقع فراہم کئے جاتے تھے۔

شاہین کہتے ہے کہ اگر وقت پرنازیہ اور ان جیسے بچوں کو پولیوں کے قطرے پلوایئں جاتے تو اج وہ بھی عمر بھر کی معزوری سے بچ جاتیں اور معاشرے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتیں تو اس لئے والدین کو چاہیئے کہ تمام پراپیگنڈو سے بچ کر اپنے بچوں کے مستقبل کو بچایئں۔

Back to top button