کئیرٹیکر چیف ڈھولچی اور گود لئے ثقاقتی بھیڑئیے
تحریر: وارث
پنجاب حکومت کیا پورے ملک میں سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں کچھ کی تو صرف یہی ڈیوٹی ہے کہ منہ دیکھے
حکومت سازی کے بعد فیصلہ سازی جس ابہام کا شکار ہے وہ حکومت وقت پر بڑا سوالیہ نشان ہےمصلحت کوشی ہے یا ذاتی تشہیر کی مہم!
عوام کے لئے خزانہ خالی ہے منادی ہوچکی حالات کی چکی میں پستے حلق پھاڑ کر بولنے والے کےلئے جیل کی چکی مختص ہے۔خاموش رہو مگر کیسے اگلی نسلوں کو غلام ابن غلام بنانے سے کہیں بہتر ہے کہ رستہ نکلا جاۓ اس کے لئے ہر فرد کو ذمہ داری لیتے ہوۓ اپنے روایتی کردار سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا ورنہ یہ نظام نسلوں کو فکری بانجھ کر دیگا۔
عدل کا قاعدہ عدالت کی دہلیز پر ہر روز پھاڑ ا جا رہا ہے وہ نظام جو انصاف نہیں بلکہ زندگیاں کسی گرداب میں رہنے کے لئے رائج کیا ہو نو آبادیاتی نظام کو اونچی آواز دینے پر اعصاب شکن ٹرائلز کا جال جس نے آزادی کی بات کرنے والے کو باغی کا ٹائٹل دینے کے لیے سہولت کاری کی۔یہ سب توسیع ہے اسی عہد کی۔
حاکم وقت تیرے پُتلی تماشے پر اب بات آٹے سے بڑھ کر ہمارے لہو کے صدقے تک آگئی ہے اب تیری آواز ہمیں بچے چھپانے پر مجبور کر رہی ہے۔اس بستی میں خالی ہاتھ جدوجہد بھی قابل برداشت نہیں رہی۔اے اصل حاکم! بتا ،ہمارا حاکم کون ہے؟ یہ سرکاری ڈھولچی/جوتشی بھی بڑے کمبخت ہوتے ہیں ہر روز پیٹ اور جیب بھر کر اگلی صبح کی تشہیر کرتے ہیں فکر معاش میں بھی مستند جھوٹ نظر انداز نہیں ہوتا۔ایف اے ،بی اے ، ملک کے حاکم اور دانشمندی اس وارڈ نمبر چھ میں مریض ہے۔
سرکاری ڈھولچی بتاتا ہے سب اوپر نیچے ہوگا اسی دوران پنجاب کا چیف ڈھولچی بھی تبدیل ہو گیا۔ محکمہ اطلاعات و ثقافت ،پنجاب کا مکروہ دور جو کئیرٹیکر صحافی کے دور سے شروع ہوا ایسا گدھ جس کے کنڈکٹ نے اسکے باپ کے لفظ بھی چبا ڈالے وہی تسلسل تھا مگر متنازعہ سیاسی حکومتوں کے بھی اپنے خدوخال ہوتے ہیں جو انہیں عوام سے بار بار جوڑتے ہیں ادھر خواتین کی سیاسی حکومت کے جہاں کچھ فوائد ہیں وہیں اس کے خاص مسائل بھی جہاں کلیجہ چباتے بھی نفاست کا سیٹ لگا رہتاہے۔ جماعت اسلامی یوں تو دائیں بازو کی نمائندہ جماعت ہے مگر بصد احترام وہ بھی عوامی ایشوز کو ایڈریس کرتی معلوم ہوتی ہے۔ عظمیٰ بخاری کی اکیلی جان بھیڑیوں کے جھنڈ میں پھس چکی ہے وہ کئی معاملات پر باقاعدہ بریفیڈ بھی نہیں وگرنہ خود مختار سرکاری ثقافتی اداروں کےبورڈز فوری از سر نو تشکیل پاتے مگر نہ ہی کوئی محکمے کا سیکرٹری اس فراڈ کوسامنے لاۓ گا اور نہ ہی کوئی ڈی جی یا ثقافتی ڈائریکٹر یہ سچ بتاۓ گا وہ جعل سازی کی توثیق جعلی بورڈز اور کمیٹیوں سے کرواتے رہیں گے۔ ۔لاہور ہائیکورٹ کی انٹرا کورٹ اپیل میں الحمراء کے نوید بخاری کی ترقی ہو یا سابقہ ڈی جی پی آر افراز احمد کی عرصہ سے ہینگنگ گارڈن میں ترقی کا لٹکتا کیس ۔سب ان اداروں کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں جن کا کام خطے کا چہرہ دیکھانا ہے۔مریم نواز کے دفتر کا سٹاف بھی اپنے قبیلے کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ چھپا کر سب اچھا کی رپورٹ دیکر عظمیٰ بخاری اور مریم نواز میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یوں ثقافتی بھیڑئیے ، نفسیاتی کلرک اپنے دور کوطول دے رہے ہیں۔ عوام کی معاشی ،نفسیاتی حالت کو مزید تکلیف دینے کی بجاۓ مریم نواز اور عظمیٰ بخاری کو گود لئے ثقافتی بھیڑیوں سے ثقافت کو آزاد کروانا ہوگا۔۔۔ ڈھولچی بڑے دفتر سے کیس دبانے کی آواز دے رہا جبکہ سیاسی حکومت کے چالے کچھ اور بتا رہے ہیں۔چیف ڈھولچی کے بعد ثقافتی بھیڑئیے کا جانا ٹھہر چکا۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔