سوات. بے روزگار نوجوان تنگ آکر ملک چھوڑنے پر مجبور
بی ایس کمپیوٹر سائنس میں ڈگری حاصل کرنے والے سوات کے رہائشی فواد خان نے دو سال پہلے سرکاری محکموں فشریز، محکمہ لائیو سٹاک، ایجوکیشن اور ریسکیو 1122 میں نوکری حاصل کرنے کے لئے درخواستیں جمع کئے تھے تاہم تحریری اور فزیکل ٹیسٹ کے باوجود ان کی نوکری نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ملک چھوڑ کر دوبئی میں ایک کمپنی کا کام شروع کیا۔ فواد خان کے مطابق عوامی نمائندے الیکشن سے پہلے ان کے ساتھ نوکریوں سمیت دیگر سہولیات دینے کے وعدے کرتے ہیں تاہم کامیاب ہونے کے بعد وہ اس پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے سینکڑوں نوجوان ( لڑکیاں اور لڑکے) روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
فواد کے بقول انہوں نے صوبائی حکومت کے مقتدر لوگوں سے بھی میرٹ کی بنیاد پر نوکری حاصل کرنے کی بات کی تھی اور ان کو نوکری دینے کی یقین دہانی بھی ملی تھی لیکن معاشرے میں سفارش کا کلچر عام ہونے کی وجہ سے دو سال تک وہ انتظار کرتے رہے لیکن پھر بھی ان کو نوکری نہیں ملی۔
فواد خان کہتے ہے کہ جب میری تمام امیدیں ختم ہوگئیں اور بے روزگاری نے پریشان کیا تو انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے مجبوراً متحدہ عرب امارات کا رخ کیا، پیسے قرض لے کر ایک رشتہ دار کے ریفرنس سے دوبئ گیا وہاں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کوئی 1500 درھم پر 12 گھنٹے جاب شروع کی، اور ابھی تک اس امید پر جاب کررہا ہے کہ شاید جو درخواستیں دی تھی اس پر کوئی کارروائی ہوکر کوئی نوکری مل جائیگی، کیونکہ ان کے مطابق دوبئ مستقل حل نہیں ہے۔
انہوں نے مذید کہا کہ بڑے مشکلوں سے تعلیم حاصل کی اسی اسرے پر کہ انہیں اپنے علاقے میں اچھی نوکری ملے گی، ان کے مطابق ان کا تعلیم ابھی بھی بے نتیجہ نہیں ہے کیونکہ اسی بنا پر دوبئ میں جاب کر رہا ہے لیکن ماں، باپ، بہن بھائیوں سے دور ان کی زندگی مشکل میں ہے اور ابھی ان کی نئی زندگی کی شروعات (شادی) بھی نہیں ہوئی ہے۔
یہ صرف فواد خان کی کہانی نہیں ہے اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں لڑکے لڑکیاں ہیں جو کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بے روزگاری سے دوچار ہے۔
ان کے مطابق ایک تو روزگار نہں مل رہا اور دوسری طرف عام لوگ یہ الزام بھی لگاتے ہے کہ جن کا حکومت ہوتا ہے وہ اپنے لوگوں کو ترجیح دیتے ہے اور قابلیت یا میرٹ برائے نام ہوتا ہے، خیبر پختونخوا کے پچھلے وزیراعلیٰ محمود خان جن کا تعلق بھی ضلع سوات سے ہے، ان کے حلقے کے لوگ یہ الزام لگاتے ہے کہ انہوں نے بھی نوکریوں میں من مانیاں کرکے اپنے لوگ بغیر میرٹ کے مختلف اداروں میں بھرتی کیں ہوئے ہیں اور یہاں تک کہ ان کے بھائی پر لوگوں سے پیسے لینے کا بھی الزام ہے جو کہ محمود خان کا خاندان ان الزامات کو رد کرتے ہے۔
خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کا یہ تیسرا دور حکومت ہے اور صوبے کے تقریباً ہر ضلعے سے ان کو صوبائی اور قومی نشستیں ملی ہے۔
زرائع کے مطابق دو سال پہلے پچھلے حکومت میں ریسکیو 1122 خیبرپختونخوا میں ضرورت کے تحت تقریباً 1200 بھرتیوں کے تحریری اور فزیکل ٹیسٹ لئے گئے تھے لیکن وہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے، اسی طرح دوسرے اداروں میں بھی بہت سارے ٹیسٹ ہوچکے ہے لیکن اس پر بھی ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوا ہے۔
سوات میں ایک غیر سرکاری ادارے میں کام کرنے والی علیمہ (فرضی نام) کہتی ہے کہ انہوں نے ایم ایس پولیٹکل سائنس تک تعلیم حاصل کیا ہے، وہ علاقائی کلچر اور شناخت کی وجہ سے زیادہ معلومات شئیر نہیں کر سکتی لیکن کہتی ہے کہ اس نے پچھلے دو سالوں میں محکمہ تعلیم میں بڑے اور چھوٹے تمام پوسٹوں پر یہاں تک کہ سکولوں میں استانی کی پوسٹ کے لئے بھی کاغذات جمع کرائی ہے۔ ان کے مطابق ابھی تک جہاں جہاں اس نے اپلائی کیا ہے اس کا کوئی پتہ نہیں چلا اور سیاسی اپروچ ان کی نہیں ہے اور ہر کوئی ان کو یہی بتاتا ہے کہ سیاسی اپروچ یا پیسوں کے بغیر نوکریاں نہیں ملتی۔
سوات میں فواد اور علیمہ کی طرح ہزاروں بے روزگار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجود ہے، جن میں سے بہت سارے پرائیویٹ سیکٹر کا رخ کرتے ہے، لیکن سوات جیسے علاقوں میں باالخصوص پرائیویٹ سیکٹر اور غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) میں لڑکیوں کے لئے کام کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں وہ علاقائی کلچر کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا تیسرا دور حکومت
خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے حالیہ انتخابات میں مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا ہمیشہ نوجوانوں کا نعرہ رہا ہے لیکن تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بالخصوص نوجوانوں نے عمران خان سے اپنے امیدیں باندھی ہے کہ ان کے لئے انقلابی اقدامات کرے گا لیکن صوبے میں تحریک انصاف کے تین ادوار میں اس حوالے سے قابل قدر اقدامات نظر نہیں آئیں۔
ملاکنڈ یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مراد علی کے مطابق تحریک انصاف نے پچھلے تین ادوار میں مختلف نعریں لگائیں لیکن سوات ایکسپریس وے اور پشاور میں بی آر ٹی کے علاوہ کسی بھی بڑے پراجیکٹ لانے میں کامیاب نہیں ہوئی جبکہ حالیہ وزیراعلی علی امین گنڈا پور نے بھی نوجوانوں کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائی جو اس جماعت کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے ڈیم بنانے، باہر سے اربوں روپے لانے اور نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بڑے بڑے دعوے کئے تھے لیکن صوبے میں ایک بھی سیکٹر میں کوئی خاطر خواہ یا انقلابی اقدامات نہیں کئے گئے اور ائندہ بھی اس لئے مشکل لگ رہا ہے کہ جیسا پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے تو خیبر پختونخوا اس سے بھی زیادہ معاشی مشکلات سے دوچار لگ رہا ہے۔
خیال رہے کہ جون کے اخر میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری مراسلے میں کہا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے صوبے بھر میں سرکاری نوکریوں کے لئے بھرتیوں پر پابندی اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔ اس سے پہلے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے رواں سال مارچ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد صوبے میں ہر قسم کی نوکریوں کے لیے بھرتیوں پر پابندی عائد کی تھی۔
30 مئی کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے کھیل اور امور نوجوانان سید فخر جہان نے کہا تھا، کہ حکومت صوبے میں نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور اپناروزگار شروع کرنے کیلئے احساس نوجوان روزگار سکیم کے نام سے بڑا صوبائی فلیگ شپ منصوبہ شروع کررہی ہے جسکے تحت صوبہ بھر کے نوجوانوں کو ہر شعبے میں اپنا ذاتی کاروبار قائم کرنے کے لیے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس سکیم کے تحت نوجوانوں کو کلسٹرز کی شکل میں دس لاکھ تا ایک کروڑ تک کا بلا سود قرضہ فراہم کیا جائیگا جو بنک آف خیبر کے تحت دیا جائے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، مذکورہ سکیم کی کل لاگت 05 ارب روپے ہے اور سکیم میں اقلیتوں، خصوصی افراد اور مدارس میں زیر تعلیم جوانوں کیلئے پانچ، پانچ فیصد مخصوص کوٹہ مختص کیا جائیگا۔مشیر کھیل نے کہاکہ صوبے کی یہ سکیم بلا سود قرضوں پر مشتمل ہوگی جس کے ذریعے وہ اپنے موجودہ کاروبار کو ترقی دے سکیں گے یا اپنے لئے نیا کاروبار شروع کرسکیں گے۔
12 اگست کو نوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں فخر جہان نے دہرایا تھا کہ ہم صوبے میں بانی چیئرمین اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ویژن کے تحت نوجوانوں کی ترقی،خودمختاری اورکامیابی کیلئے کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ نوجوانوں کے لئے ایک میگا یوتھ بزنس لون سکیم شروع کررہے ہیں جو سود فری ہوگا تاکہ ہمارے نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی60 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن اس سال جون میں شائع ہونے والی پاکستان اکنامک سروے 2023-2024 کے مطابق پاکستان میں تقریباً 45 لاکھ افراد بے روزگار ہیں جن میں 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ 11.1 فیصد ہے۔
سروے کے مطابق کل لیبر فورس7.18 کروڑ ہے جس میں دیہی علاقوں کے 4.85 کروڑ اور شہری علاقوں کے 2.33 کروڑ شامل ہیں۔
جبکہ ملازمین کی تعداد 6.73 کروڑ ہے اس میں 4.57 کروڑ دیہی اور شہری علاقوں کے 2.15 کروڑ شامل ہیں اور 45 لاکھ افراد بے روزگار ہیں، خواتین میں بے روزگاری کا تناسب زیادہ ہے جہاں 10 فیصد مردوں کے مقابلے 14.4 فیصد خواتین بے روزگار ہیں۔
سروے کے مطابق 25 سے 34 سال کی عمر کے گروپ دوسرے نمبر پر ہے جہاں بے روزگاری کی شرح 7.3 فیصد ہے اس بریکٹ میں 5.4 فیصد مرد اور 13.3 فیصد خواتین شامل ہیں۔
مالی سال 2024 میں پاکستان سے 7 لاکھ 89 ہزار 837 لوگ روزگار کیلئے بیرون ملک چلے گئے ہیں۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال 2023 میں پاکستان سے 8 لاکھ 11 ہزار 469 افراد روزگار کیلئے بیرون ملک گئے تھے۔