خواتین کا اقتصادی و معاشی ترقی میں اہم کردار ہونے کے باوجود صنفی عدم مساوات کا شکار
وزارت انسانی حقوق کے مطابق خواتین کا اقتصادی و معاشی ترقی میں اہم کردار ہونے کے باوجود صنفی عدمساوات کا شکارہیں،کورونا وائرس سے عدم مساوات کے خدشات بڑھ گئے ہیں،بچیوں کو طویل لاک ڈاؤن کے بعداپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بیلنس کرنااور حاملہ خواتین کو مناسب طبی سہولیات تک رسائی انتہائی مشکل ہو گئیں ہیں، لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بے روزگار ہونے کی وجہ سے خواتین کی معاشی خودمختاری کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیں ہیں۔
وزارت انسانی حقوق کی جانب سے کووڈ۔19(کورونا وائرس) کی صنفی اثرات اور نتائج سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں صنفوں (مرد72.5% بمقابلہ عورت52.4%) کے مابین شرح خواندگی غیر متناسب ہے،12فیصد خواتین کے مقابلے میں 20فیصد مردسکینڈری ایجوکیشن مکمل کر پاتے ہیں،اسی طرح صرف13فیصد خواتین کے مقابلے میں 19فیصد مرد اعلیٰ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں،خواتین کیلئے تعلیمی اداروں کی بھی کمی ہے۔
وزارت انسانی حقوق کے مطابق پاکستان کے نظام تعلیم جس میں سیکھنے کا لیول کم اورچھوڑنے کا عمل زیادہ ہے،کمزور طالبعلموں خاص لڑکیوں کی تعلیم پر کورونا وائرس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،لڑکیوں کولڑکوں کے مقابلے میں تعلیمی اداروں کی بندش کے دوران زیادہ سے زیادہ گھریلو کام کاج دیا جاتا ہے جس سے ان کے تعلیمی سرگرمیوں متاثر ہو تی ہیں،سکول کھلنے کے بعد لڑکیوں کو سکول کے کاموں اور گھریلو کاموں میں تناسب برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا،جس کے نتیجے میں خواتین کے حصول تعلیم کی شرح کم اور سکول مکمل کی شرح کم ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کورونا وائرس کا با آسانی ہدف بن سکتی ہے،بیماری پھیلنے کی صورت میں خواتین پر کام کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے،حتی کہ ان کو بیماری لاحق ہونے تک گھریلو امورانجام دینی پڑتی ہیں، پاکستان میں نرسز اور ہیلتھ ورکرز کی بڑی تعداد خواتین ہیں، یہ خواتین کورونا وائرس کے مریضوں کی تشخیص اور علاج کیلئے فرنٹ لائن کردار ادا کرتی ہیں۔
وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تقریباََ20فیصد خواتین اس ذرائع آمدن بڑھانے کی سرگرمیوں میں مشغول ہیں،ان میں سے زیادہ تر غیر رسمی کم آمدنی والے مارکیٹ سے منسلک ہیں،ہیلتھ ایمرجنسی کی صورت میں اس طبقے پر دباؤ شدید بڑھ جاتا ہے،کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باعث گھروں اور چھوٹے اور درمیانے کاروبار سے منسلک خواتین کو بھی بے روزگار ہونا پڑا،گھروں اور چھوٹے کاروبار سے منسلک تقریباََ1کروڑ20لاکھ خواتین بہ مشکل تین سے چار ہزار تک کما سکتیں ہیں اور ان کے ہمہ جہتی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے،کورونا وائرس سے جاری لا ک ڈاؤن کے دوران خواتین اور لڑکیوں کو گھریلو کام کاج کی جانب زیادہ توجہ مرکز کرنی پڑتی ہیں، جس سے ان کو فنی مہارت حاصل کرنے کیلئے وقت نہیں مل پاتے،جو کہ خواتین کی خودمختاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
رپورٹ میں صنفی عدم مساوات کے خاتمے کیلئے تجاویز دیں گئیں ہیں کہ وزارت تعلیم کی ”ٹیلی سکول“ پروگرام تک بچیوں اور لڑکیوں کو.رسائی فراہم کی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ اس پروگرام سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے سہولیات فراہم کی جائے،زیادہ حاضری پر لڑکیوں کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائے،ماس میڈیا ور ٹیلی کمیونکیشن مہم کے ذریعے حاملہ خواتین کو ڈلیوری کے دوران پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے طبی سہولیات کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے،کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے جامع مہم بھی جاری ہے،خواتین کو گھریلو و دیگر تشدد سے بچانے کیلئے فرنٹ لائنزز کو سینسیٹائز کیا جائے، تشدد کا شکار خواتین کو محفوظ رکھنے کیلئے پناہ گاہوں کو آپریشنل رکھا جائے،میڈیا مہم کے ذریعے مردوں کو خواتین کی حفاظت بارے آگاہی دی جائے،کووڈ19ریسپانس ٹیم میں خواتین سٹاف اور رضا کاروں کو بھی شامل کیا جائے