ہمارے رویئے ماحولیاتی تبدیلی کے لئے گلوبل وارمنگ سے بڑا خطرہ؟
کراچی میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ فضائی آلودگی میں اضافے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے، عافیہ سلام
کورونا وائرس دسمبر 2019 میں چین کے علاقے وہان سے سامنے آٰیا تھا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا، پاکستان میں کووڈ 19 کا پہلا کیس فروری 2020 کے اختتام پر سامنے آیا تھا جس کے بعد فوری اقدامات اٹھائے گئے اور مختلف مواقع پر وفاق اور صوبوں کی جانب سے کبھی مکمل اور کبھی جزوی لاک ڈاؤن لگایا جاتا رہا اور بعد ازاں لاک ڈاؤن تو ختم کردیا گیا لیکن متعدد پابندیاں لگتی رہیں۔
لاک ڈاؤن سے قبل پاکستان کے متعدد شہریوں میں فضائی آلودگی کی ابتر صورت حال کے حوالے سے متعدد رپورٹس سامنے آتی رہیں جن میں سے بیشتر میں صورت حال کو تشویشناک قرار دیا گیا اور اس سے متعلق فوری اقدامات کرنے کے لیے متعدد سفارشات دی گئٰیں۔
کورونا کے باعث ملک میں لگنے والے لاک ڈاؤن کے ایک جانب معیشیت پر تو بہت زیادہ برے اثرات مرتب ہوئے لیکن اس میں ایک مثبت چیز ماحولیات کے حوالے سے تھی، اسلام آباد میں رہائش پذیر لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے فضا میں آلودگی کے کم ہونے کی وجہ کئی سالوں کے بعد مظفر آباد آزاد کشمیر کے پہاڑوں کو وفاقی دارالحکومت میں بیٹھ کر مشاہدہ کیا جو کئی سال قبل بالکل اسی طرح نظر آتے تھے۔
اس کے علاوہ ماحولیات اور فضائی آلودگی یا ہوا کے معیار کو ماپنے والے اداروں نے یہ دعوے بھی کیے گئے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ایندھن کے کم استعمال اور صنعتوں کے بعد ہونے کے باعث ماحول بہتر ہوا ہے اور اس کا اثر کراچی جیسے صنعتی شہر میں بھی دیکھا گیا۔
لاک ڈاؤن کے دوران کراچی جیسے صنعتی شہر میں ایئرکوالٹی کنٹرول انڈیکس بہتر ہوا، ڈاکٹر عامر عالمگیر
کیا واقعی لاک ڈاؤن کے دوران ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئی اور کیا ہم ایسے اقدامات کرکے ان نتائج کو طویل عرصے کے لیے حاصل کرسکتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب جاننے کے لیے جامعہ کراچی کے شعبہ انوائرمنٹل اسٹیڈیڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر عامر عالمگیر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی۔
ڈاکٹر عامر عالمگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دو بڑے شہر کراچی اور لاہور فضائی آلودگی کی ہٹ لسٹ میں آچکے ہیں اور ان کا شمار دنیا کے ان 5 شہروں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ فضائی آلودگی پائی جاتی ہے اور اگر ہم یہاں کراچی کی بات کریں جو ایک صنعتی شہر بھی ہے اور ساتھ ہی ہم ایئر پولوٹینٹ ایمیشن کی بھی بات کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے شہر کے صنعتی علاقوں سائٹ ایریا و دیگر میں آکسائیڈ آف سلفر (جسے سوکس بھی کہا جاتا ہے) اور آکسائیڈز آف نائیٹروجن، یہ سب ہمیں بہت زیادہ مقدار میں ملتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہمیں شہر میں بہت زیادہ ٹریفک نظر آتی ہے اور ہمارے شہر میں بہت سی پرانی گاڑیاں ہیں جن کی لوگ مناسب ٹیوننگ نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے ہمیں ایک اور پولوٹینٹ کاربن مونو اکسائیڈ کی شکل میں نظر آتا ہے یہ اہم مسائل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ہمارے ہاں ایک مسئلہ سالڈ ویسٹ کا ہے اور ہم نے اس کا ایک بہت ہی آسان سا حل تلاش کیا ہے کہ ہم کچرے کو آگ لگا دیتے ہیں، ہمارے ہاں "سیگری گیشن آف ویسٹ” کا طریقہ کار موجود نہیں ہے (یعنی مختلف فضلے کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگانا) اور نہ ہی ہم علیحدہ علیحدہ ڈسبن کو فالو کرتے ہیں، یعنی ہم ریساکل اور نان ری سائیکل چیزوں کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی جانب بھی نہیں جاتے اور ہم کچرے سے جان چھڑانے کے لیے اسے آگ لگا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کاربن مونو آکسائیڈ خارج ہو کر ہمارے ماحول میں جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کاربن مونو اکسائیڈ ہماری زندگیوں کے لیے اتنی خطرناک ہے کہ وہ ہمارے جسم میں خون میں آکسیجن کو کم کردیتی ہے جس کی وجہ سے بھی ہمیں مختلف قسم کی بیماریاں اپنے اطراف میں نظر آتی ہیں۔
پروفیسر ڈٓاکٹر عامر عالمگیر کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ہمارے شہر میں کنسٹرکشن کا کام اور اس کے ساتھ ہی دھول مٹی بھی فضائی آلودگی میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں پرٹیکیولیٹ میٹر بہت زیادہ نظر آتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں فضا ابر آلود نظر آتی ہے یہ تمام ایئر پولوٹینٹ مل کر بہت سے مسائل کو جنم دے رہے ہیں، لیکن اس دوران ہم نے دیکھا کہ ہم نے اپنی لمٹس کو کراس کرلیا اور جو بھی گائیڈ لائنز ہیں ہم انہیں کراس کرتے چلے گئے اور ہم نے ایسے اقدامات نہیں کئے جس سے ہم اس کا نکلنا روک سکیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیکن ہم نے کورونا کے وقت میں یہ دیکھا کہ جب صنعتیں بند ہوئیں اور سڑکوں پر گاڑیاں کم ہوگئیں اور بہت سی ایسی سرگرمیاں جس کی وجہ سے ہمارے ماحول کو نقصان پہنچ رہا تھا اور ہماری آب و ہوا خراب ہو رہی تھی، تاہم ہم نے یہ لاک ڈاؤن کے دوران 2020 اور 2021 میں دیکھا کہ لاہور اور کراچی کی ایئر کوالٹی (ہوا کا میعار) بہتر ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف یہ کہ کراچی کا ایئر کوالٹی کنٹرول انڈیکس بہتر ہوا بلکہ لاہور اور دیگر شہروں میں بھی اس میں بہتری دیکھی گئٰی لیکن ہم ماحول اور فضائی آلودگی یا ایئر کوالٹی کو بہتر کرنے کے لیے مستقل لاک ڈاؤن کی جانب نہیں جاسکتے، کیوں کہ لاک ڈاؤن کا مطلب ہے آپ نے سب بند کردیا لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم ان تمام چیزوں پر اپنی روز مرہ کی زندگی میں عمل درآمد کریں اور صنعتی شعبے کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
"ہمارے ملک میں گلوبل وارمنگ اور اوزون سبمیشن کے اتنے ایشوز نہیں"
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں گلوبل وارمنگ اور اوزون سبمیشن کے اتنے ایشوز نہیں ہیں، لیکن ہمارے ہاں جو سب سے زیادہ مسائل ہیں وہ فضائی آلودگی، ناقص پانی کی فراہمی اور سالڈ ویسٹ کا مسئلہ ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جیسے ہم نے سوشل میڈیا، اخبارات یا نیوز چینلز کے ذریعے کورونا کے لیے آگاہی دی ہے، اسی طرح ہم ماحولیات کے مسئلے پر بھی آگاہی دے سکتے ہیں، ماحولیاتی تعلیم پر کام کرسکتے ہیں، یہ صرف حکومت کی یا اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے، یہ ہم سب کا مسئلہ ہے اور ہم سب لوگ اس سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں کوئی سائنٹفک بات نہیں کروں گا بلکہ ہمیں ایک عام فرد تک آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جہاں کچرے کو چلا کر ہمیں متعدد ایئر پولوٹینٹ کا سامنا ہوتا ہے اس کے ساتھ ڈائی اوکسن ایک گیس ہے جو بہت زیادہ خطرناک ہے اور یہ ایک مرتبہ آپ کے ماحول میں آجائے تو اسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور یہ گیس پلاسٹک کو جلانے کی نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جسے ہم کچرے کے ساتھ جلا رہے ہیں۔
ڈاکٹر عامر عالمگیر کا کہنا تھا کہ یہ ڈائی آکسن گیس ہمارے جسم میں جا کر کینسر جیسے مرض کا بھی باعث بنتی ہے، ہمیں کچرے کو ری سائیکل کرنے کی جانب جانا چاہیے ہمیں اپنی گاڑیوں کی مناسب وقت پر ٹیوننگ کروانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح صنعتوں سے فضلے کے طور پر جو پانی یا گیسز نکل رہی ہیں اسے مناسب انداز میں ٹریٹ کرکے مواد کو ڈم کرنے کی ضرورت ہے اور بحیثت پاکستانی ہمیں بھی اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح ہم نے کورونا سے بچنے کے لیے خود کو تیار کیا، ہم اس ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے بھی خود کو تیار کرسکتے ہیں، یہ سب ہمیں نا صرف اپنے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی کرنا ہوگا۔
شہر کے اطراف میں موجود اینٹو کے بھٹے سے فضا میں ہونے والی آلودگی سے کتنا رقبہ فضا یا زمین پر متاثر ہوتا ہے سے متعلق سوال کے جواب میں جامعہ کراچی کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ اینٹوں کے بھٹے میں جلائے جانے والے کچرے سے فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہو کر شامل ہوتی ہے اور جہاں یہ کام کیا جا رہا ہوتا ہے وہاں کی زمین بھی خراب ہو رہی ہوتی ہے، اگر وہاں کوئی درخت یا پودے موجود ہیں تو وہ بھی خراب ہو جاتے ہیں، تو اس چیز کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، اب تک کوئی بھی ایسی تحیقی نہیں ہوئی ہیں جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ اس کچرے کو جلائے جانے سے کتنی کاربن مونو آکسائیڈ فضا میں منتقل ہوئی ہے یا اس کے اطراف میں کتنا رقبہ ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہوتا ہے؟
"فضائی آلودگی کینسر کے علاوہ جلد اور سانس کی بیماریوں کا باعث ہے"
جب ان سے سوال کیا گیا کہ فضا میں موجود گیسز جنہیں جانداروں کے لیے نقصاندہ قرار دیا جاتا ہے وہ کس قسم کے اثرات مرتب کررہی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ائیر پولوٹینٹ کی بات کریں تو کاربن مونو آکسائیڈ ہے، نوکس، سوکس پرٹیکیولیٹ میٹرز ہیں، گراونڈ لیول اوزون ہے، لیڈ ہے اور ان سب کے علیحدہ علیحدہ اثرات جانداروں کے اجسام پر ہوتے ہیں، انسانوں پر علیحدہ اثرات ہیں اور ماحول پر علیحدہ اثرات ہیں، اگر اس حوالے سے اہم اثرات پر بات کریں تو یہ ہماری اسکن کو نقصان پہنچاتے ہیں، آج کل سانس کی بیماری بہت زیادہ دیکھی جارہی ہے، جلد کی بیماریاں بہت زیادہ پھیل رہی ہیں اور مختلف قسم کے کینسر سامنے آرہے ہیں اور ہم اس جانب بلکل بھی توجہ نہیں دے رہے۔
ڈاکٹر عامر عالمگیر کا مزید کہا کہ ہمیں اپنی ائیر کوالٹی کا خیال نہیں ہے اور جس فضا میں ہم رہ رہے ہیں، اللہ ایسا وقت نہ لائے جیسا کہ ہم منرل واٹر خریدنے کے لیے وافر مقدار میں رقم خرچ کررہے ہیں، تو ایسا نہ ہو کہ ہم آنے والے وقت میں آکسیجن خریدنے کے لیے بھی اپنی کمائی کا ایک حصہ اس پر خرچ کررہے ہوں، اگر ماحول مزید خراب ہوتا ہے تو ہماری سب سے زیادہ ضرورت آکسیجن کا سیلنٹر ہوگا اور منرل واٹر کی بوتل تو بہت بعد میں آئے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دھول مٹی بھی ہمارے لیے بہت زیادہ نقصاندہ ہے، وہ ہمارے پھپٹروں کو نقصان پہنچاتی ہے اور سانس کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہوتی ہے اور ساتھ ہی کاربن مونو آکسائیڈ آپ کے پھپٹروں میں داخل ہو کر آپ کے جسم میں خون میں آکسیجن کی کیئرئنگ کیپسٹی کو کم کررہی ہوتی ہے اور ساتھ ہی نوکس اور سوکس والا ماحول آپ کی اسکن کو نقصان پہنچا رہا ہے، اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے منفی اثرات ہیں، جس میں کینسر بھی شامل ہے اور اس سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال کرنے کی انتہائی ضرورت ہے خاص طور پر جب ہم کسی صنعقی علاقے سے گزر رہے ہوں تو ماسک کا استعمال کریں۔
"آنے والی نسلوں کے لیے ماحول کو بہتر کرنا ہوگا"
کورونا لاک ڈاؤن کے دوران فضائی آلودگی میں کمی کے نتائج کو کس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مستقل لاک ڈاؤن نہیں کرسکتے لیکن ماحول کو صاف رکھنے، ایئر کوالٹی کو بہتر کرنے اور پانی کو صاف رکھنے کے لیے ہم جو پہلا قدم اٹھا سکتے ہیں وہ ہمارا ایٹیٹوڈ (مزاج) ہے، اگر ہم اس ماحول کے ساتھ اپنا مزاج اچھا رکھیں گے تو بہت سی چیزیں بہتر ہوجائیں گی لیکن ہم پیٹرول سے آگ بجھانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں اور گزشتہ 25 سال میں جتنی تباہی ہوچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ہم سسٹینیبلیٹی کو حاصل نہیں کرسکتے، انفرادی طور پر ہمیں اقدام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس کے لیے تیار کرنا ہوں گا، پانی کو اوبال کے استعمال کریں اور اس پر رقم خرچ کرنے سے قبل ہم یہ تحقیق کرلیں کہ اس میں کونسے پولوٹینٹ ہیں، جس فضا میں ہم رہے ہیں اس میں ایسی چیزوں کو شامل نہ ہونے دیں جو مسائل کا باعث بن سکتی ہیں، دیکھیں صنعتوں کو ہم پابند کرسکتے ہیں لیکن کچرا تو ہم جلا رہے ہیں، پلاسٹ کو ہم جلا رہے ہیں، بہت سارا ایسا فضلہ ہے جو انتہائی نقصان دہ ہے ہم وہ بھی کچرے میں ملا دیتے ہیں، ایک جانب ہم سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پر سوالات اٹھا رہے ہوتے ہیں، اگر ہم اپنے گھر سے ہی ٹیسبن کو علیحدہ کرلیں ان کے لیے تو ہم اس کو بچا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جو بار بار ایک چیز کی نشاندہی کررہا ہوں وہ ہے ماحولیات سے متعلق آگاہی، اور اس حوالے سے تعلیم کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ہمارے ہاں اسکولوں میں دیگر کمپلسری کے کورسز پڑھائے جاتے ہیں اسی طرح ماحولیات کے سبجیکٹ بھی پڑھائے جانے چاہیے۔
مضر صحت گیسز فضا میں پہلے ہی موجود ہیں لیکن ان کی زیادتی نقصان کا باعث ہوتی ہے، عافیہ سلام
اسی حوالے سے ماحولیات اور فضائی آلودگی پر کام کرنے والی صحافی اور ایکٹویسٹ عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ فضا میں مختلف گیسز موجود ہیں لیکن مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی ایک گیس کی مقدار، تناسب یا اس کی شرح دیگر کے مقابلے میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اگر حالیہ گلوبل ورننگ کی تناظر میں دیکھیں تو کہا جاتا ہے کہ کاربن بہت زیادہ ہوگئی ہے اس کے علاوہ میتھین اور سلفر ہے۔
عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ اگر ہم کراچی کے تناظر میں بات کریں تو کیوں کہ یہ ایک انتہائی گنجان آباد، بڑا اور صنعتی شیر ہے اس سب کی وجہ سے ہماری فضا میں جو گیسز پائی جاتی ہیں اور فضا میں ان کا تناسب بہت زیادہ ہے ان علاقوں کے مقابلے میں جہاں کھلی فضا ہے یا جنگلات ہیں یا فصلیں اگائی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک میں اب کچھ ادارے ایئر کولٹی کنٹرول کو دیکھنے کے لیے فعال ہوئے ہیں جو اس سے قبل نہیں تھے اور بد قسمتی سے اس سے قبل ایئر کوالٹی پر کوئی کام نہیں ہوتا تھا کہ یہ انسانی جسم پر کتنی اثر انداز ہوتی ہے، اس کے علاوہ بہت سے عالمی ادارے موجود ہیں جو ایئر کوالٹی کو ماپتے ہیں اور اس کا ڈیٹا جمع کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سیٹلائیٹ کا ڈیٹا بھی موجود ہے۔
عافیہ سلام نے بتایا کہ ہمارے شہر میں موجود صںعتیں اور خاص طور پر وہ صنعتیں جو پرانی ہیں جہاں ماحول دوست اقدامات نہیں کیے گئے ہیں، یعنی دھوئیں کا اخراج نہیں ہونے دینا یا فضلے کو ٹریٹ کرکے صنعت سے باہر نکالنا ہے، اس سب کے لیے ہمارے نیشنل کوالٹی اسٹینڈرڈ موجود ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سب کی نگرانی کے لیے ہمارے صوبائی ماحولیاتی ادارے ہیں انوائرمنٹل پروٹیکشن اینجسیز موجود ہیں جن کا کام ہے کہ وہ ان سب کی مانیٹرنگ کریں اور اگر ان ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو وہ ان صںعتوں کو انتباہ دینا اور جرمانے بھی کرتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ان کا اطلاق ہو رہا ہے۔
کراچی میں فضائی آلودگی میں اضافہ کے ذمہ دار کونسا شعبہ ہے؟
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کراچی جیسے شہر میں فضائی آلودگی کی اصل وجہ کونسا شعبہ ہے؟ جس پر عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ شہر میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہے، اور اس سے جڑی صبعتیں بھی جیسے ایندھن مہیا کرنے والی ریفائنریز اور آئل ماکیٹنگ کمینیاں ہیں ان کا بھی ہاتھ ہے۔
ماحول کو صاف رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں سے متعلق سوال کے جواب میں عافیہ سلام نے بتایا کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ گاڑیاں فوسل فیول پر ہی چلتی ہیں، ایک اقدام تو یہ کرنا ہے کہ فوسل فیول کی کوالٹی ایسی کرنی ہے کہ فضائی آلودگی میں اٖضافہ نہ ہو اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرونک گاڑیوں سے متعلق پالیسی بھی آگئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کی ایک خاص تناسب میں گاڑیاں 2030 تک الیکٹرک ہوجانی چاہیں۔
کراچی میں فضائی آلودگی اور دیگر فضلے سے متعلق اقدامات کے حوالے سے کیے جانے والے سوالات کے جواب میں عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے شہر کے مضافات میں کچرے کے پہاڑ موجود ہیں، یہاں کچرا جلایا جاتا ہے اور اس میں سے جو زہریلے مادے نکلتے ہیں۔
"ہمیں ساحلی شہر ہونے پر شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ ہمارا ماحول ہی لاہور سے مختلف نہ ہوتا"
عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ ابھی تو ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم ساحلی شہر ہیں جو کچھ ہم فضا میں پھینک رہے ہیں سمندری ہوا اس کو ہمارے اوپر سے ہٹا دیتی ہے، لیکن جب ہم پاکستان کے دیگر شہروں کو دیکھتے ہی تو ہمیں معلوم پہتا ہے کہ جیسا کہ لاہور اور فیصل آباد کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے وہاں یہ تمام چیزیں ہیں وہاں کچرا بھی ہے وہاں اینٹوں کے بھٹے بھی ہیں اور ان علاقوں میں زرعی فضلہ یا فصل کی باقیات بھی جلائی جاتی ہیں جبکہ صنعتیں بھی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ہمارے لیے سی بریز اللہ کی رحمت ہے، جو آلودگی کو ایک جگہ پر منقسم (کانسٹریٹ) نہیں ہونے دیتی اور اگر یہ سی بریز ہمارے ہاں نہ ہو تو ساری آلودگی ہم سانس کے ساتھ اپنے جسم میں داخل کر رہے ہوتے۔
کیا واقعی لاک ڈاؤن کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئی؟
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا کورونا وائرس کے دوران لگنے والے لاک ڈاؤن اور اس دوران ٹرانسپورٹ اور صنعتی شعبے کی بندش کی وجہ سے ماحول میں بہتری دیکھی گئی تھی؟ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جی بالکل اس میں بہتری دیکھی گئی تھی اور لوگوں نے سوشل میڈٖیا پر اس کی تصاویر بھی شیئر کی تھیں، کہ حد نظر فاصلے میں اضافہ ہوا اور کیوںکہ وہ گرد و غبار کم ہوا جو آلودگی کی وجہ سے ماحول پر اثر انداز ہو رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اور اس سب کو دیکھ کر لوگوں میں یہ شعور اجاگر ہوا کہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ہمیں اقدامات کرنے چاہیے، یہاں انہوں نے نشاندہی کی کہ جب لاک ڈاؤن کے دوران فضائی آلودگی کم ہوئی تو لوگوں کو اسلام آباد سے کشمیر کے پہاڑ نظر آنے لگے، جو کئی سالوں سے ان کی نظروں سے اوجھل تھے اور اس کا سبب ہمیں یہ نظر آیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران فضائی آلودگی میں کمی ہوئی تھی اور ایسا بھی نہیں کہ ہم فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے مستقل لاک ڈاون میں چلے جائیں لیکن اس دوران جن اسباب کی نشاندہی ہوئی ہے ہم ان کو تو کم کرسکتے ہیں۔
عافیہ سلام کا مزید کہنا تھا کہ پینڈیمک نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر کوئی بیماری آئے گی تو جو ہمارا لائیو اسٹائل ہے وہ تیزی سے پھیلے گی اور اس کا عالمی فٹ پرنٹ بہت تیزی سے آئے گا، جیسے کورونا کو دیکھ لیں یہ ایک کونے سے شروع ہوئی اور لوگوں کے سفر کے باعث دنیا کے ہر کونے میں پہنچ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماحولیات کے سائنس دان بہت عرصے سے اس بات کا انتباہ دے رہے ہیں کہ ہمارے شمالی اور جنوبی قلب میں جو بڑے بڑے برف کے تودے موجود ہیں اور یہ کئی صدیوں سے موجود ہیں اور اس برف کے نیچے کیا ہے ہمیں نہیں معلوم اور وہ یہ خبردار کررہے ہیں جب وہ برف پگل جائے گی، اس میں کونسے بیکڑیریا یا وائرسز نکلیں گے ہمیں نہیں معلوم اور انسان ان کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اس کے لیے ہم میں قوت مدافعت نہیں ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران ماحول پر پڑنے والے اثرات کا ڈیٹا
مذکورہ ڈیٹا کے حصول کے لیے محکمہ موسمیات اور سندھ انوائرمنٹ ایجنسی (سیپا) سے آر ٹی آئیز کے ذریعے مواد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جن سے یہ ڈیٹا حاصل نہیں ہوسکا، جس کے بعد میں نے سیپا اور محکمہ موسمیات کے دفاتر میں کال کرکے تفصیلات جاننے کی کوشش کی جس پر محکمہ موسمیات کے عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرتے ہوئےکہا کہ ایئر کوالٹی کنٹرول کا ڈیٹا ان کے پاس نہیں ہوتا تاہم وہ صرف ہیٹ ویو سے متعلق ڈیٹا فراہم کرسکتے ہیں دوسری جانب سیپا سے جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں، میں خود کورنگی میں قائم سیپا کے دفتر گیا اور ڈیڑھ گھنٹہ دفتر میں موجود رہا اور مجھے مختلف عہدیداروں کے پاس منتقل کیا جاتا رہا تاہم یہاں سے بھی ڈٰیٹا حاصل نہ ہوسکا۔
دوسری جانب مجھے اُمید ہے کہ آئندہ ہفتے میں کسی بھی صورت میں سیپا سے ڈیٹا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا جس کے ذریعے میں ماحولیاتی آلودگی کے کورونا لاک ڈاؤن سے قبل اور دوران میں کم ہونے والے اثرات کو مختصر تفصٰلات پیش کرسکوں۔
علاوہ ازیں میں نے ایئر کوالٹی کنٹرول کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے امریکن قونصلیٹ سے بھی رابطہ کیا تھا جن کے مطابق ان کے پاس یہ ڈیتا دستاویزات کی صورت میں نہیں ہے اور یہ ان کے ٹوءٹر اکاؤنٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے جو بہت زیادہ وقت طلب کام ہے۔
علاوہ ازیں میں نے مذکورہ ڈیٹا کے حصول کے لیے ماحولیات پر کام کرنے والے مختلف نجی اداروں سے بھی ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اس میں بھی اب تک پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
نوٹ: اگر مجھے صرف ایئر کوالٹی اینڈکس کا ڈیٹا مل جاتا ہے جو کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ تناسب کو ظاہر کرے اور اس حوالے سے سیٹلائٹ تصاویر مل جاتی ہیں ہو اسٹوری پبلکیشن کے لیے مکمل ہے۔