تحریر : تابش عباسی
ترقی یافتہ ہونے کی دوڑ میں جہاں اہک جانب آج کا انسان آگے بڑھتا جا رہا ہے وہی جانے انجانے آج کا انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی تباہی کے اسباب پیدا کر رہا ہے ۔
پوری دنیا میں درخت لگانے اور اس کی دیکھ بھال ذمہ داری سمجھ کر نبھائی جاتی ہے جب کہ وطن عزیز میں کبھی جنگلات کو "پراسرار آگ” لگ جاتی ہے ۔ کبھی "درخت لگاو ، بخت جگاو” جیسے نام نہاد منصوبوں کی شروعات کر کے نیا ڈرامہ رچایا جاتا پے ۔ پر آج تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پر آنے والی حکومت جنگلات بڑھانے کے نئے نئے منصوبے لے کر آتی ہے تو وہ جاتے کہاں ہیں ! آخر کون سے درخت لگائے جاتے ہیں جو انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے ۔
شہر مظفرآباد سے ملحقہ ایک گاوں لنگرپورہ جہاں 1280 کنال زرعی زمین جس پر 2005 کے ہولناک زلزلے تک ، چاول کی فصل کاشت کی جاتی تھی ، آج ایک سرکاری ہاوسنگ سوسائٹی کے لیے مختص ہے ۔ کون سی دنیا میں زرعی زمینوں پر ہاوسنگ سوسائیٹیز بنائی جاتی ہیں ۔ یہ 1280 کنال زمین نہ صرف چاول کی فصل پیدا کرتی تھی بلکہ ماحول اور آب و ہوا کی تازگی اور بہتری کا سبب بھی تھی ۔ پالیسی سازوں کی نادانی کہیں یا مکاری ، آخر کیا وجہ تھی کہ 2005 کے بعد چاول کی فصل کے لیے پانی کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی ! کیوں صدیوں سے موجود زرعی زمین کو ہی ہاوسنگ سوسائٹی کے لیے خریدا گیا – ایسی ہی دکھیا داستان ٹھوٹھہ کی بھی ہے جہاں زرعی زمین لے کر مہاجرین کی آبادکاری کے لیے ہاوسنگ سوسائٹی تعمیر کی گئی ۔
سابقہ وفاقی حکومت کے بلین ٹری نامی ایک منصوبے میں آزاد کشمیر میں بھی درخت لگائے گئے ۔ اس کو اتفاق کہیں یا ہوشیاری ، جونہی وفاقی حکومت تبدیل ہوئی ، یہاں محکمہ جنگلات کے گارڈذ و واچرز ہونے کے باوجود ، جنگلات آگ کی زد میں آئے ۔ ایک عام رائے یہ بھی ہے کہ یہ آگ محض اپنی کرپشن کو چھپانے کا ایک طریقہ تھا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کب "ماحولیاتی تبدیلی ” اور اس سے متوقع مسائل کو ہماری عوام و حکومت اور متعلقہ ادارے سنجیدگی سے دیکھتی ہے ! پر ڈر یہ بھی ہے کہ کہیں بہت دیر نہ ہو جائے.