معلومات تک رسائی

’’معلومات تک رسائی کے قوانین پر عوامی اعتماد کے لئے کمیشن کے درست فیصلے ضروری ہیں‘‘

بلوچستان کے چیف انفارمیشن کمشنر عبدالشکور نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ ایک آن لائن سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں شفافیت کے لئے بنائے گئے اداروں اور کمیشنز کو مختلف حوالوں سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح بلوچستان انفارمیشن کمیشن بھی مسائل سے دوچار ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں عمومی طور پر کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سرکاری ادارے سے مفادِ عامہ سے متعلق سوال کرسکے یا معلومات حاصل کرسکے۔ صوبے میں معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کے لیے ایک ول (will) کا فقدان ہے۔

عبدالشکور کے مطابق کمیشن کو قائم ہوئے آٹھ سے نو ماہ گزر چکے ہیں، تاہم ابتداء سے ہی بیوروکریسی کی جانب سے شدید مزاحمت سامنے آئی۔ ہماری تقرری کے لئے درکار ضوابط بھی پورے نہیں کیے گئے۔ بیوروکریسی کی جانب سے بجٹ اور افرادی قوت فراہم کرنے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ کمیشن کو رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دینی چاہئیں اور اسے بجٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب کمیشن کے لئے دفتر کا مطالبہ کیا گیا تو جواب ملا کہ اس کی فی الحال ضرورت نہیں، کسی بھی سرکاری عمارت میں ایک کمرہ دیا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومت نے ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کمیشن تو قائم کردیا ہے مگر اسے فعال نہیں بنایا گیا۔

چیف انفارمیشن کمشنر کا کہنا تھا کہ تمام وسائل کے شدید فقدان کے باوجود ہم نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کردی ہیں اور اس سلسلے میں مختلف این جی اوز کی معاونت سے کام کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 70 محکموں کو انفارمیشن افسران کی تقرری کے لئے خطوط لکھے گئے مگر صرف چار محکموں کی جانب سے جواب ملا۔ اسی طرح proactive disclosure کے لئے بھی اداروں کو خطوط بھیجے گئے لیکن کسی ادارے نے جواب نہیں دیا۔

معلومات تک رسائی کے قوانین پر کمیشن کے درست فیصلے عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہیں: مختار احمد علی

سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ آن لائن سیشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ معلومات تک رسائی کے قوانین کی آگاہی کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ انفارمیشن کمیشن درست فیصلے کرے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شہری معلومات کے حصول کے لیے انفارمیشن کمیشن سے رجوع کرتا ہے اور کمیشن اسے مطلوبہ معلومات فراہم کرنے یا اس کے حق میں درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ شہری کمیشن کا چلتا پھرتا اشتہار بن جاتا ہے۔ وہ نہ صرف آئندہ خود بھی اس قانون کو استعمال کرے گا بلکہ دوسروں کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کرے گا۔

مختار احمد علی کا کہنا تھا کہ اگر کمیشن درست فیصلہ نہ کرے یا شہری کی درخواست میں نکتہ چینی کرے تو ایسے ماحول میں جہاں پہلے ہی اداروں پر عوامی اعتماد کا فقدان ہے، لوگ یہ تاثر لیں گے کہ معلومات تک رسائی کے قوانین کو استعمال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انفارمیشن کمیشنز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بلوچستان انفارمیشن کمیشن کی طرح دیگر کمیشنز کو بھی ابتدا ہی سے مسائل کا سامنا رہا ہے اور یہ مسائل آج بھی درپیش ہیں۔

فیک نیوز کے تدارک کے لیے معلومات تک رسائی کے قوانین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں: صحافی سعدیہ مظہر

معلومات تک رسائی کے قوانین کو استعمال کرنے والی صحافی سعدیہ مظہر نے کہا ہے کہ فیک نیوز یا ڈس انفارمیشن کا مقابلہ کرنے اور ان کے تدارک کے لیے معلومات تک رسائی کے قوانین ایک مؤثر ٹول ثابت ہوسکتے ہیں۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے ایک سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیوز آرگنائزیشنز میں بھی معلومات تک رسائی سے متعلق آگاہی دینا ضروری ہے تاکہ اس قانون کا بہتر استعمال کیا جا سکے۔

سعدیہ مظہر نے اپنی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ دو سال قبل انہوں نے پنجاب اسمبلی سے اپنے شہر ساہیوال سے منتخب ہونے والے نمائندوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے معلومات تک رسائی کے تحت درخواست دی تھی۔ اس وقت یہ معلومات پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں تھیں، تاہم پنجاب انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اب یہ معلومات ہر شہری کے لیے ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

سرکاری اداروں کی ویب سائٹس پر معلومات کی عدم دستیابی تشویشناک ہے: کاشف علی

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کاشف علی نے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی کے قوانین میں Proactive Disclosure ایک نہایت اہم سیکشن ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی شہری کو مطلوبہ معلومات کے لیے کسی ادارے یا کمیشن کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں سرکاری اداروں کی ویب سائٹس پر یہ معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔

کاشف علی کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کے قوانین پر عمل درآمد سے متعلق ڈیٹا انفارمیشن کمیشن یا متعلقہ اداروں کی ویب سائٹس پر موجود نہیں ہوتا، حالانکہ یہ ڈیٹا لازمی طور پر انفارمیشن کمیشن اور اداروں کی ویب سائٹس پر ہونا چاہیے۔

Back to top button