کمسن مزدور سے مکالمہ
وادی کوئٹہ میں سردی اپنی جوبن پر تھی۔ زندگی معمول کی مطابق چل رہی تھی ،ہر سوں چہل پہل تھی چلتن کے پہاڑوں پر شفق نمودار ہوتے ہی شہر سے تھکے ہارے لوگ گھروں کو لوٹنے شروع ہوجاتے تھے۔میں بھی معمول کے مطابق اسی وقت دفتر سے اپنے کولیگ مدثر کے ساتھ گھر کا رخ کرلیا کرتا تھا ۔ مدثر مجھے موٹرسائکل پر لوکل بس اسٹاپ تک پہنچایا کرتا تھا اور مزید سفر گھر کی طرف لوکل بس میں طے کرنا پڑتا تھا۔
میں جب بھی بس میں سوار ہوتا تھا تو مجھ سے پہلے ایک کمسن بچہ بس میں لگے حفاظتی آئینی پائپ سے لٹک رہا ہوتا تھا اس کے ہاتھ،منہ اور کوٹ گریس اور آئل کےکالے داغوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے تھکان کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا تھا۔جب بھی میں نے اسے دیکھا نیند اس کی سمندر سی آنکھوں میں لہریں بن کر آنکھوں کی کنارے سے ٹکرا رہی ہوتی لیکن بس میں دھکم پیل کی وجہ سے وہ چند لمحوں کیلئے ہی آنکھیں بند کرپاتا۔
جمعے کا دن تھا میں بس اسٹاپ پہنچ کر سیدھا بس میں چڑھا تو دیکھا آگئے کے سیٹ پر وہ بچہ براجمان ہے میں بھی سیدھا جاکر اس کے بغل میں جاکر بیٹھ گیا۔ عموماََ جمعے کو کوئٹہ کے بازار کے اکثر دکانیں بند ہوتی ہیں اس لیے لوکل بس میں بھی سواریوں کا رش نہیں ہوتا بیٹھنے کیلئے سیٹ باآسانی مل جاتی ہیں۔اس نے مجھے بیٹھتے دیکھ خود کو کھڑکی کی طرف سمٹ لیا کچھ لمحوں کیلئے وہ خاموش رہا پھر گویا ہوا لالا آپ کی سکول کی چھٹی کتنی دیر سے ہوتی ہیں ۔ میں اس کی معصومیت پر مسکرایا اور اس سے کہا میں تو سکول پڑھنے نہیں جاتا۔ وہ حیران ہوا اور پھر کہنے لگا لالا تو پھر روزانہ آپ کے ساتھ یہ سکول کا بستہ کیوں ہوتا ہے۔ میں نے کہا اس میں سکول کے کتابیں نہیں بلکہ لیپ ٹاپ یعنی کمپیوٹر ہیں ۔ وہ جواب سن کر اپنی لاعلمی پر تھوڑے سے شرمائے اور پھر بول اٹھے تو لالا آپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں بھی آپ کی طرح مزدور ہوں۔ وہ ہنسا اور بول پڑا لالا آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ کس طرح کے مزدور ہو کہ آپ کے ہاتھ میرے ہاتھوں کی طرح میلے کچیلے نہیں ہیں اور نہ آپ کے کپڑے میرے کپڑوں کی طرح میلے ہیں، میرے ساتھ تو کوئی بس میں بیٹھنا گوارہ نہیں کرتا میں تو آپ کو روز دیکھتا ہوں آپ کے ساتھ لوگ بس بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں، آپ بالکل جھوٹ بول رہے ہو آپ مزدور نہیں ہو سچ بتاو کیا کرتے ہوئے۔ میں نے چونکہ پہلے اس کا نام نہیں پوچھا تھا تو اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام رحیم اللہ بتا یا اس کے بعد اپنے کام کے حوالے سے اسے آگاہ کیا.
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میں نے رحیم اللہ سے اس کی زندگی کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا میں یتیم ہوں میری ایک چھوٹی بہن ہے وہ گھر کے سامنے بیٹھ کر چاکلیٹ، بیسکٹ اور پاپڑ بیچتی ہے ۔ میری والدہ گردوں کی مریضہ ہیں اور ہم تینوں کرایے کے مکان میں رہتے ہیں۔ میں صبح سویرے کام پر جاتا ہوں ایک گیراج میں چھوٹو ہوں کام سیکھ رہا ہوں ہفتے میں استاد مجھے پانچ سو روپے دیتا ہے۔ لیکن لالا وہ سارا دن گالیاں دیتا رہتا ہے اور بعض اوقات مارتا بھی ہیں۔ لیکن میں مجبور ہوں گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ رحیم اللہ ایک لمحے کیلئے خاموش رہا اور پھر ایک آہ بھری اور کہنے لگا لالا میری عمر سکول جانے کی ہے کتابیں پڑھنے کی ہے لیکن میرے ہاتھ میں کتاب، کاپی اور قلم کے بجائے صفائی کا کپڑا اور پانے، پلاس اور پیچکش ہیں۔
رحیم اللہ نے کھڑکی سے پردہ تھوڑا سا اٹھایا بس کے باہر اندھیرا پھیل چکا تھا۔ رحیم اللہ نے اندھیرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا لالا۔۔: اس تاریکی اور ہماری زندگی میں کوئی فرق نہیں ہیں۔ زندگی اس جہاں میں صرف امیروں کی ہے ان کے بچے مزدوری کے بجائے سکول جاتے ہیں اور مجھ جیسے بچے امیروں کی گاڑیوں کے نٹ بولٹ صبح صبح ٹھیک کررہے ہوتے ہیں۔لالا پتہ ہیں میرا دل کتنا دکھ رہا ہوتا ہے جب بھی اپنے محلے کے بچوں کو سکول جاتے ہوئے صبح دیکھتا ہوں ، سوچتا ہوں کہ کیا میں اس دنیا کا بچہ نہیں ہوں کہ میرا حق نہیں ہے کہ میں پڑھ لکھ لو۔ میرے بھی خواب ہیں لیکن میرے خواب صرف خواب ہی رہ گئے میرے خواب کبھی بھی پورے نہیں ہوسکتیں ۔ مزدور ہوں مزدور ہی رہونگا بس اس دنیا میں ہمارا اتنا ہی حق ہے۔ میں نے آج تک اچھے کپڑے نہیں پہنے ہیں اور نہ اچھا کھانا کھایا ہے ،اور نہ کبھی پیٹ بھر کے کھایا ہے۔ لالا یہ صرف میری کہانی نہیں ہے سینکڑوں مزدور بچوں کی کہانی ہے جس کو میں جانتا ہوں اور وہ ہمارے ساتھ گیراج اور دیگر ہمارے قریب گیراجوں میں مزدوری کرتے ہیں۔رحیم اللہ اپنی داستان سنا رہا تھا اسے پہلی مرتبہ موقع ملا تھا کہ اپنا دکھ بیان کرنے کا وہ مسلسل بولے جارہا تھا کہ اس دوران میرا اسٹاپ قریب آیا اور میں نے رحیم اللہ کو خداحافظ کہا اور بس سے اتر گیا۔
جس طرح رحیم اللہ نے مجھے بتایا کہ غربت و افلاس کی کہانی اس تک محدود نہیں ہے یہ بات واقعی سچ اور زمینی حقائق کے مطابق تھی۔اس اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں سترہ لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ان بچوں میں اکثر چائلڈ لیبرز ہیں، اور وہ گیراج، دکانوں، بسوں،کھیتوں،کباڑخانوں اور کانوں میں مزدوری کرتے ہیں جو کہ ایک المیے سے کم نہیں ہیں.