شرم و حیا کے معاشرتی بوجھ تلے دبی خواتین
وہ جنرل سٹور پر گھبرائی ہوئی سی ایک جانب قدرے دبک کر کھڑی تھی۔ کچھ عجیب محسوس ہوا مگر میں آگے بڑھ گئی۔ جس ریک کی جانب اس کا رخ تھا، وہاں لفافوں میں پیک سینٹری پیڈز پڑے تھے اور دو نوجوان انہیں ترتیب سے رکھ رہے تھے۔
دونوں لڑکوں کے ہونٹوں پر کچھ ذومعنی سی دبی دبی سی ہنسی بھی تھی۔ چاہتے نا چاہتے میری تمام تر توجہ اس لڑکی کی جانب ہو گئی۔ اچانک دوسری جانب سے شاید اس کی والدہ نمودار ہوئیں اور کافی ترش انداز سے اسے کچھ کہا اور اسی ریک کی جانب اشارہ کیا۔
بات کچھ پلے پڑی کہ ضرورت شاید پیڈز کی ہے مگر جھجھک آڑے آ رہی ہے۔ میں مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور پیڈز کے ریک پر پہنچی۔ ایک پیکٹ اٹھایا ہی تھا کہ وہ نوجوان پھرتی سے آگے آیا، ”باجی یہ لفافے میں ڈال لیں۔‘‘ میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا وہ مالک لوگوں نے کہا ہے کہ ایسے اچھا نہیں لگتا۔ میرا سوال تھا کہ آپ لوگ ریک میں سجا کر رکھ سکتے ہیں انہیں مگر ہم اسے کھلے عام خرید بھی نہیں سکتے۔ اسی دوران وہ بچی بھی سینٹری پیڈ لفافے میں ڈال کر آگے بڑھ چکی تھی۔
ویسے عجیب بات نہیں کہ پیڈز سجانا وہ بھی مردوں کے ہاتھوں مناسب ہے مگر اسی کا خریدنا لفافے میں ڈالے بنا معیوب ہے۔ ہم بحیثیت قوم ‘اسلام کا مکس اچار‘ بن چکے ہیں۔ اخلاقیات پر بھی مذہب کے ایسے ایسے چورن ڈالے گئے ہیں کہ اخلاقیات ان کے بھبھکوں سے ہی ہوا ہو چکی۔
یوٹیوب چینلز پر مذہبی شخصیات کے لیکچر سنیے تو حیض کے آغاز سے لے کر اختتام تک آپ کو ساری تفصیل فخر سے بتائیں گے۔ ماں کے دودھ کی دین میں افادیت اور اس میں اضافے کے بھی ایسے ایسے باریک نقطے نکالیں گے کہ بعض اوقات عورت خود سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ میرے ہی اعضاء کی بات ہو رہی ہے؟ مگر یہی گفتگو عورت کرنا چاہے تو ”بے شرم و بے حیا اور بے لگام‘‘ جیسے خاص خطاب عطا کیے جاتے ہیں۔
بچی کے سینے پر اُبھار اتنی جلدی واضح نہیں ہوتے، جتنی جلدی معاشرے کی زیرک نگاہیں اسے محسوس کر لیتی ہیں، ”لڑکی جوان ہو گئی ہے، اسے گھر بیٹھاؤ! سوال یہ ہے کہ قصور جسمانی تبدیلیوں کا ہے یا دیکھنے والی بے لگام نگاہوں کا؟
بازاروں میں جگہ جگہ لٹکتے عورتوں کے زیر جامہ ملبوسات کس شرم و حیا کی تاریخ بیان کرتے ہیں؟ مرد بازار جائے، دوسرے مرد سے اپنی عورت کے لیے زیر جامہ خرید کر لائے تب حیا قائم رہتی ہے۔ کالج جاتی لڑکیوں کو پہنائے سفید یونیفارم پر کبھی لال نشان لگ جائے تو ان پر ”لال شربت‘‘ کی آواز کسنا مردانگی ٹھہرتی ہے۔
لیکن میرا ایک سوال ہے کہ کیا زیر جامہ ملبوسات خر یدنا بے شرمی ہے؟ کیا سینٹری پیڈز خریدنا، حیض پر بات کرنا بے حیائی ہے؟ کیا بچی کے جسم میں آنے والی تبدیلیاں اس سے مزید محبت اور احساس کی طالب ہوتی ہیں یا سینہ ڈھانپو، زیر جامہ ملبوسات چھپا کر رکھو، ٹھیک سے بیٹھو وغیرہ کے بوجھ تلے دبانے کی؟
شاید ضرورت اب مردوں کو بتانے کی ہے کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں۔ اپنے بیٹوں کو بتایا جائے کہ لڑکی، بہن ہو، بیٹی ہو، ماں یا کسی بھی روپ میں، وہ قابل احترام ہے نا کہ قابل ستائش کوئی ماسٹر پیس۔ یہ بتایا جائے کہ لڑکی نے صرف اپنا بوجھ اٹھانا ہے، باپ، بھائی، شوہر، بیٹے یا معاشرے کی غیرت کا نہیں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو