Blog

بلوچستان ہمارا ہے

 

بلوچستان کے سردار، نواب  نہیں چاہتے  کہ صوبہ ترقی کرے، بلوچستان  میں  تعلیمی ادارے بنیں    بلوچستان کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں صنعتیں قائم ہو لوگوں کو روزگار ملے۔ سڑکیں بنیں تاکہ لوگوں  کا سفر آسان ہوسکے۔ مذکورہ  بالا  باتوں کے بارے میں  ملک  کی اکثریت اسٹیرویو ٹائپ ہے، وہ زمینی حقائق کے بجائے  انہی باتوں کو سچ گردانتے ہیں۔لیکن  کبھی عوام نے بھی  یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کیا واقعی سردار  نواب  بلوچستان کی احساس محرومی  کے ذمہ دار ہیں۔ آیا  بلوچستان میں  سرداروں اور نوابوں کا اتنا اثر و رسوخ  بھی ہے یا نہیں  یا  انھیں دھوکے میں رکھا جارہا ہے۔اس  بابت صرف اتنا  بتانا لازمی سمجھتا ہوں  کہ  بوچستان کے ساٹھ فیصد علاقوں میں سرداری اور  اور  نوابی  نظام  وجود ہی  نہیں رکھتا۔اگرکہی پر شاذ و نادر ہے تو وہ  علاقائی  جرگوں  اور فیصلوں تک  محدود ہے۔  یاد رہے  بلوچستان کے وہ  علاقے  بھی اتنے پسماندہ ہے جتنے  نوابوں اور سرداروں  کے اثر و رسوخ  والے علاقے ہیں.

سردار  اور نواب   بس  ایک بہانہ ہیں ۔ بلوچستان کو   دانستہ  طور پر ستر سال سے پسماندہ  رکھا گیا ہے۔   لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے  سرداروں اور  نوابوں کو  بلوچستان کی  پسماندگی  کا  ذمہ دار  ٹھہرایا گیا ، حالانکہ یہی تمام سردار نواب تقریباََ  اسٹبلشمنٹ کے منظور نظر رہے  اور کسی نہ کسی صورت میں  حکومت کا حصہ رہے  سوائے چند ایک کے.

مذکورہ بالا  الزامات آج بھی دھرائے جاتے ہیں۔ اس  کی واضح مثال معروف کرکٹر شاہد خان آٖفریدی کا دورہ بلوچستان  ہے ۔ اس دورے کے دوران  شاہد خان آفریدی  نے  مستونگ کے مقام پر مستحقین  میں راشن تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کیا ـ اس خطاب کے دوران شاہد آفریدی کے  ادا کردہ کلمات نے بلوچستان میں ایک نئی بحث چھڑ دی.

شاہد آفریدی نے تقریب  سے خطاب کرتے ہوئے  کہا ” بلوچستان ایک خوبصورت صوبہ ہے اللہ نے  اس صوبے کو  وہ تمام  نعمتیں  عطا کی  جس کا  ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن  میں کیا ہے ۔ لیکن  میں  نے  اس صوبے  میں  غربت ملک کے دیگر علاقوں کی  نسبت زیادہ دیکھی ہے یہاں کے لوگ بہت  غریب ہیں لیکن کدھر ہیں  وہ لوگ جو کہتے تھے  بلوچستان ہمارا  ہے. "

 ان نکات کو لیکر  سماجی  رابطے کے ویب سائٹس  پر ایک نئی  بحث کا آغاز ہوگیاہے ۔ جس سے یہ تاثر ملا  کہ شاہد آفریدی   تقاریب میں  کسی اور کا  لکھا ہوا  اسکرپٹ پڑھ رہے تھے ۔ شاہد آفریدی کا مقصد  امداد کی فراہمی نہیں  ہے بلکہ  ان کا دورہ  ایک سیاسی ایجنڈے کی  تکمیل ہے۔  اسٹلبشمنٹ  شاہد آفریدی کو سیاسی طور پر لاونچ کرنے کا  ارادہ رکھتی ہے۔ اور اس سلسلے میں  اس کی تیاریاں ہورہی  ہے اور  اس مد میں  شاہد آفریدی  کو تیار کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ   شاہد آفریدی  کے تقاریر سے یہ لگ رہا تھا کہ وہ  بلوچستان  کے معاملا ت کے حوالے سے  آگاہی ہی رکھتے کیونکہ  انہوں  نے بلوچستان  کے پسماندگی  کے ذمہ داران  کے بارے میں  پرانا  راگ  آلاپا  لیکن  اب بلوچستان کے نوجوان اور باسی اس حقیقت کو سمجھنے لگے  ہیں کہ ہمیں  دانستہ طور پر  پسماندہ رکھا گیا ہے۔ بلوچستان میں  ہر نعمت تو موجود ہے، لیکن  ہم اس کے باوجود  رب کے دئے ہوئے نعمتوں  سے محروم ہیں  جبکہ اس  سے کوئی اور مستفید ہورہا ہے۔ یہ نعمت ہمارے کسی کام کی نہیں۔

شاہد آفریدی کے  دورہ بلوچستان  سے  یہاں کے لوگوں میں  یہ یقین پختہ ہوگیا کہ  شاہد آفریدی  دوسرا  عمران خان بنتا جارہا ہے۔ اسی مقصد کیلئے  اسے پورے پاکستان میں  امداد کی فراہمی  کے نام پر دورے کروائے  جارہے ہیں.

Back to top button