Blog

صحافیوں کو تحفظ دو۔۔۔۔۔۔

صحافی ایک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو مختلف میڈیا کے لئے خبرڈھونڈ کر لاتے ہیں صحافت کا مقصد کیا ہو نا چاہئے؟ اس سوال پر عوام کے رائے اپنے اپنے نقطہ نظر سے مختلف ہے کچھ لوگ اس کو خالص منافع کمانے سے جوڑتے ہیں بلکہ دیگر کاروبار کی طرح خیال کرتے ہے کچھ صحافت کو سماج اور ملک میں ایک خبر دار کرنے والے سپاہی کے طر ح خیال کرتے ہیں جس کا کام ہمیشہ طاقتور لوگوں،اداروں میں چھپے کالے بھیڑوں، زیادتی اور بد عنوان عناصروں سے مظلوم عوام اور محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کی جنگ تصور کرتے ہیں۔

چونکہ ایک صحافی جب پیشہ ورانہ ذمہ داری انجام دیتے ہوئے ایک خبر چلاتا ہے تو یقیناوہ خبر یا تومشترکہ سماج میل جول والے علاقے یاقصبے کے اگر فلاح و بہبود کے ہو تو دوسری طرف وہی خبر بد عنوان عناصر، قبضہ مافیا، جرائم پیشہ عناصر یا سرکاری اداروں میں بیٹھے رشوت خوروں جو بل واسطہ یا بلاواسطہ اُن سے مناسب رکھتا ہوں خلاف ہو تا ہے، اور اگر عوام کے خلاف ہو تو صحافی کو بُرا بھلا کہنا اور زرد صحافت کا طعنہ کوئی نئی بات نہیں، پھر بھی صحافیوں نے پیشہ وارنہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے اور عوام تک خبر پہنچانے کی پاداش میں دھمکیاں، ہراسمنٹ، جھوٹے مقدمات یہاں تک کے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ایسا ہی واقعہ حالیہ دنوں ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی بخت محمد کے ساتھ پیش آیا۔ صحافی بخت محمد کے مطابق ڈبلیو ایس ایس سی ایم نامی شہر کی صفائی ستھرائی پر معمورکمپنی کے ناقص کارکردگی پر جب علاقہ عمائدین کی انٹریو کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ،فیس بک پر اپ لوڈکی گئی تو کمپنی کے اسسٹنٹ منیجر سے لے کر نچلے مزدور اہلکاروں تک دھمکیوں اور زرد صحافت کے طعنوں پر اُتر آئیے۔ بخت محمد کے مطابق بات جب نہ بنی تویونین کے غنڈوں سے اُن کو ہراساں کرنا اور دھمکیاں اور من گھڑت مقدمہ درج کرنے کے لئے مزدوروں کواکسایا اوراپنےکپڑے پھاڑ کر جھوٹی مقدمے کے اندراج کے لئے تھانہ ہوتی میں درخواست جمع کر دی تاکہ پولیس کے زریعے پریشر ڈالنے کی کوشش کی جائے، واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز کمپنی مردان (ڈبلیو ایس ایس سی ایم) کی اس ہتک آمیز اور انتقامی کاروائی سے مردان کے عوام میں بالعموم اور صحافی برادری میں بالخصوض شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور تھانہ میں صحافی بخت محمد کی حاضر ہونے کی خبر پھیلتے ہی علاقہ عمائدین مختلف مذہنی و سماجی تنطیمیں تھانہ پہنچ گئی اور یکجہتی کا اظہار کیاجبکہ دوسری جانب ڈبلیو ایس ایس سی ایم کمپنی کے میڈیا انچارچ راحت اللہ سے جب رابطہ کیا گیاتو انہوں نے موقف ظاہر کیا کہ کمپنی ناخوشگوار واقعہ کو احسن طریقے سے نمٹانے کے خواہاں ہے جسمیں دونوں فریقین کی عزت ہو ورنہ کمپنی اپنا قانونی حق محفوظ رکھتی ہیں مردان پریس کلب کے صدر لطف اللہ لطف نے اس نا خوشگوار واقعے پر انتہائی غم و غصے کا ا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک صحافی کی خبر پر انتقامی کاروائی کرنا اور اُن کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنا ظالمانہ کاروائی ہے ہم اس کی شدید الفاظ میں مزاحمت کرتے ہیں، انگریزی اخبارات کے لئے کام کرنے والے سنیئر صحافی اور پریس کلب کے سابق جنر ل سیکرٹری ریاض مایار کے مطابق صحافیوں کو مختلف حربوں سے ڈرانے کی کوشش کرنا تاکہ وہ مجبوراکسی ادارے کے خلاف رپورٹنگ سے روکے رکھنا ان کاروائیوں کا مقصد صحافیوں کے آواز کو خاموش کرانا ہے جو کہ آئین پاکستان کے منافی ہے مردان پریس کلب کے سابق نائب صدر اور سینیئر صحافی شہاب خان،پریس کلب کے جائنٹ سیکرٹری شاہ حسین تنہا کے مطابق مردان کے صحافی نارمل رپورٹنگ کرتے ہیں صحافیوں کو جھوٹے مقدمے میں پو لیس تھانے بلانا، اُن کوجھوٹے مقدمات میں پھنسانا، دباؤ ڈالنا اور اپنے پسند کے رپورٹنگ کروانا صحافت کی آزادی پر سوالات کھڑے کرتی ہیں، صحافی فلک شیر،عامر شعیب عباسی او راخونزادہ فضل حق کے مطابق اداروں کی ناقص کارکردگی کے خلاف آواز اُٹھاتے رہیں گے اور صحافیوں کے تحفظ اور آزادی صحافت کے لئے ہر قسم کی قربانی دی جائے گی ہر ایک ادارے کو اختلاف رائے سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون ساز کب حرکت میں آئینگے؟ کب ان کی جان و مال کی حفا ظت کے لئے موثر قانون سازی ہو گی؟کیونکہ دہشتگردوں کے خلاف جنگ ہو ، بم دھماکوں کی کوریج ہو جلسے ہوں یا نا خوشگوار صورتحال ہو ان کی ذندگی کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ان کو اس بات کا یقین بھی نہیں کہ کام سے واپس زندہ حالت میں گھر جا سکیں گے یا نہیں ٹھوس قانون سازی کے بعد صحافیوں کے آواز کو دبانے والے عناصر کا راستہ بند ہو جائے گا اور صحافی برادری بلاخوف و خطر اپنے صحافتی ذمہ داری انجام دی سکے۔

Back to top button