Blog

عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے

اسلام آبادسے ہماری پرُانی یادیں وابستہ ہیں، اس شہر کی خوبصورتی میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، اور پھر جب بہت دنوں کے بعد دوستوں کا ساتھ بھی ہو تو غنیمت ہے دن بھر کی مصروفیت کے بعد شام کو جیسے ہی باہر نکلے تویہ دیکھ کر دل خوش ہوگیا کہ ہلکی ہلکی بارش نے موسم اور اسلام آباد کو مزید دلکش بنادیا تھا، اس قدر خوبصورت موسم کہ ہم اسی میں کھوگئے تھے اور مجھے اسی شہر میں گزرے سکول کے دن شدت سے یاد آئے، جب میری دنیا ایک سائیکل سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی تھی، کس قدر خوبصورت دن تھے اب تو دنیا کی اس بھاگ دوڑ میں ہم اپنے آپ میں جینا ہی بھول چکے، زندگی جینا ہی بھول چکے، اس قدر ریس لگی ہوئی ہے کہ بس کوئی بھی پیچھے دیکھنے، اپنی زندگی گزارنے،چند سکون کے لمحات گزارنے کیلئے تیارہی نہیں بس ایک دوڑ، اگر ہم اس دوڑ میں جیت بھی جاتے ہیں تو خود کو کسی بھیڑ میں ہی کھودیتے ہیں جہاں ہمیں کسی بھی چیز کا اندازہ نہیں ہوتا، جہاں ہم زندگی سے بے خبر ہوکر خود کو ایک ایسی بھیڑ میں دھکیل دیتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں، کیا زندگی کا یہی مقصد ہے کہ خود کو کسی ریس میں ڈال کر بھیڑ میں کھودینا؟ نہیں نہیں، یہ زندگی نہیں اس کی کوئی منزل نہیں، اس میں تو سکون نام کی چیز ہی نہیں، اور حاصل کیا؟ صرف دولت،جس سے آپ اپنی گزری ہوئی زندگی کا ایک لمحہ بھی واپس نہیں کرسکتے، اور یونہی ہم اپنے آپ کو خود ہی ماردیتے ہیں، خیر انہیں سوچوں میں گم تھا کہ ساتھ کھڑے ڈاکٹر سمیع اور ڈاکٹر محب اللہ جو کہ میرے اچھے دوستوں میں شامل ہیں (دونوں کوہاٹ میں پریکٹس کرتے ہیں) کی آواز نے چونکا دیا، موسم کی اس انگڑائی کو دیکھتے ہوئے رات کے بارہ بجے ڈاکٹر سمیع بضد ہوگئے کہ آئی ایٹ میں واقع کوئٹہ کیفے کی چائے پی لی جائے، اس کے بعد ہی جائیں گے ورنہ یہاں سے میری لاش ہی جائے گی، ہمارے لاکھ سمجھانے بجھانے کے باوجود وہ نہیں مانا، اور چل دئیے، حالانکہ آوارگی کا نشہ ہمیں بھی تھا لیکن ہم چھپ رہے، اور پھراندھیری رات، خوشگوار موسم اور دوستوں کی محفل میں دیر تک بیٹھنے کا اپنا ہی مزہ ہے، آئی ایٹ پہنچے تو وہاں اس قدر رش لگا ہوا تھا جیسے پورا شہر ہی یہاں آبسا ہو، خیر کڑک چائے کا آرڈر دے دیا گیا اور اسی انتظار میں خوب داستانیں سنی اور سنائی گئی، اس دوران ہر دلعزیز ڈاکٹر بخت منیر صاحب بھی زیر بحث رہے،اللہ انکے درجات بلند کرئے، خیر کہنے کا مطلب ہم کڑک چائے کی انتظار میں بیٹھے موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے، وقفے وقفے سے ڈاکٹر سمیع چائے کی فضیلتیں بھی بیان کرتے رہے بلآخر اچھی خاصی انتظار کے بعد وہ سالی چائے بھی آگئی،جس کی اس قدر تعریفیں سنی تھی کہ بس کیا کہا جائے، خیر پینے پر معلوم ہوا کہ واقعی چائے کمال کی ہے، اسلام آباد،اندھیری رات، چائے کی پیالی اور پرانی یادوں نے جھکڑلیا تھا، چائے کو یہی خاصیت حا صل ہے کہ یہ رشتوں کے اندر محبت کو بڑھا دیتا ہے، یہ برسوں بعد بھی یاروں کو ایک میز پر لاکربٹھادیتی ہے، ایک کپ چائے، اور اسی بہانے سے ہمیشہ رشتوں میں چاہت بڑھی ہے،
چائے تو ہمیشہ سے یاروں کی محفل کی سوغات رہی انہیں یادوں کو لیکر واپسی کا راہ لیا،اور دل میں کچھ اس طرح کے خیالات کا ڈھیر لگ گیا تھاجو ایک نامعلوم شاعر نے اپنی شاعری میں بیاں کی ہے،
لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے
عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے
کیتلی ہجر کی تھی،غم کی بنالی چائے
وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے
میرے دلان کا منظر کبھی دیکھو اگر
درد میں ڈوبی ہوئی شام،سوالی چائے
ہم نے مشروب سبھی مضر صحت ترک کئے
ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی چائے
یہ پہیلی کوئی بوجھے ، تو کہ، اس نے کیونکر
اپنے کپ سے مرے کپ میں بھلا ڈالی چائے
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں
اس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے
اس سے ملتا ہے محبت کے ملنگوں کو سکوں
دل کے دربار پہ چلتی ہے دھمالی چائے
رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں
اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان جاناں
ٹھنڈی ہوجائے تو پڑجاتی ہے،کالی چائے

Back to top button