Blog

عالمی یوم ہومیوپیتھی

10اپریل کو پوری دنیا میں عالمی یوم ہومیوپیتھی منایا جاتا ہے یہ دن ہومیوپیتھی کی اہمیت اور عظیم سائنسدان ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن کی سالگرہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

اس حوالے سے میں ایک معلوماتی آرٹیکل آپ کی نظر کردیتا ہوں۔ بانی ہومیوپیتھی فریڈرک سیموئیل ہانیمن10اپریل 1755کو جرمنی کے ایک قصبے میسن سکسونی میں پیدا ہوا تھا۔ان کے والد ایک مصور تھے۔ڈاکٹر ہانیمن بہت ہی باصلاحیت تھے اور نوجوانی میں ہی انگریزی، فرانسیسی،اطالوی،یونانی اور لاطینی سمیت بہت ساری زبانوں پر عبور حاصل کیا تھا بعد میں انہوں نے خاص مطالعے کے لیے عربی،عبرانی اور چند مزید زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا تھا۔

ڈاکٹر ہانیمن نے اپنی قابلیت کی بنا ء پر 10اگست 1779ء کو ایرلنج یونیورسٹی سے ایم۔ڈی۔ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی اس کے بعد وہ بحثیت ایلوپیتھک ڈاکٹر اپنی خدمات دینے لگے اور باقاعدہ ایلوپیتھک ادویات کی پریکٹس شروع کردی تھی جسے اس زمانے میں علاج بالضد بھی کہا جاتا تھا اور بعد میں ایلوپیتھی کا نام بھی ڈاکٹر ہانیمن نے رکھا "وہ اس طریقہ علاج سے مطمئن نہیں تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ پریکٹس شروع کرنے کے بعد آہستہ آہستہ مجھے احساس ہونے لگا کہ ہم جو علاج بالضد مریض کو دیتے ہیں یہ تو نہایت نقصان دہ، خوفناک اور پریشان کن طریقہ علاج ہے کیونکہ ا س میں مریض کا مرض محض کچھ وقت کے لیے جسم کے اندر دبا دیتے ہیں جو کہ بعد میں مریض کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتا ہے اور اس طرح مریض مختلف بیماریوں کا وجود بن جاتا ہے جبکہ میرے نزدیک علاج ایسا ہونا چاہیے جو کہ بغیر کسی نقصان یا پیچیدگی کے مریض کو جلد از جلد شفایابی کے مراحل سے گزارے”یہ اس عظیم انسان کے الفاظوں کا مفہوم تھا۔

انہی وجوہات کی بناء پر انہوں نے ایلوپیتھی کی پریکٹس بند کردی اور طب کی کتابوں کا ترجمہ کرنا شروع کیا کیونکہ وہ پہلے سے کافی ساری زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔لہٰذا اسی کو ذریعہ معاش بنا لیااور اسی طرح وہ ترجمہ اور بطور مصنف کام کرنے لگے پھر ایک د ن ولیم کولن کی میٹریا میڈیکا کا ترجمہ کرتے ہوئے جب وہ سنکونا بارک کو پڑھنے لگے تو انہیں اس کے مختلف الکلائیڈز کا پتا چلا جس میں کونین سرفہرست ہے

جو کہ عرصہ دراز سے ملیریا کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ڈاکٹر ہانیمن چونکہ ادویاتی اثرات کو اچھی طرح سے جانتے تھے اس لیے انہوں نے تجربہ کرنا چاہا کہ اگر سنکونا بارک کو خام حالت میں استعمال کیا جائے تو اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں چنانچہ انہوں نے خود پر ہی تجربہ کیا اور وہ دیکھتے ہیں کہ ان پر ملیریا بخار جیسی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی انہوں نے سنکونا بارک کو مزید استعمال کرنا بند کیا تو علامات خود بخود ختم ہونا شروع ہوگئی اس تجربہ سے وہ سمجھ گئے کہ جو چیز خام حالت میں بیماری جیسی علامات پیدا کرسکتا ہے.

اگر اسی چیز کو (ڈائیلیویٹ) لطیف سے لطیف کیا جائے یعنی مالیکیولز کو بار بار توڑا جائے تو اس سے ڈائینامک انرجی بڑھتی جائے گی اور اس طرح یہ طاقت ور ادویات مختلف بیماریوں کی پیدا کردہ علامات کومکمل طور پر ختم کرسکیں گے بس یہی سے ہومیوپیتھی کی بنیاد پڑھ گئی تھی۔جو کہ آج دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر استعمال ہونے والا طریقہ علاج ہے (عالمی ادارہ صحت) اس کے بعد ڈاکٹر ہانیمن نے اسی تھیوری پر کام کرنا شروع کیااور مختلف ادویاتی اثرات کی حامل چیزوں پر تحقیق شروع کی اور ساتھ ہی صحت مند انسانوں پر ان کی پروونگ کرنا شروع کردیاتھا

اس طرح بہت ساری ادویات کی پروونگ ہوگئی اور وہ باقاعدہ ہومیوپیتھی پریکٹس شروع کرنے لگے، مختلف مقالے اور ریسرچ پیپرلکھے گئے اور ہومیوپیتھی آہستہ آہستہ پوری دنیا میں استعمال ہونے لگی۔آج پوری دنیا میں یہ طریقہ علاج استعمال کیا جاتا ہے۔آج سے ڈھائی صدی پہلے اس عظیم انسان نے جس بات کی وضاحت کی تھی کہ مخض بیماری کو دبانا کوئی حل نہیں آج پوری دنیا اسی بات پر ڈٹی ہوئی ہے مختلف اینٹی بائیوٹیکس مسلسل مزاحمت پیدا کرچکے ہیں اور دور جدید کا انسان ابھی تک بیماریوں کی چنگل سے آزاد نہ ہوسکا البتہ یہ ضرور ہوا کہ بہت ساری ادویات نے وقت کے ساتھ کام کرنا بند کردیا اور مریضوں میں مختلف نت نئی بیماریاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔

جنیاتی مسائل کا انبار الگ سے بڑھ رہا ہے اور سائنسدانوں کے پاس تاحال کوئی حل نہیں اسی بات کی طرف ڈاکٹر ہانیمن نے اشارہ کیا تھا کہ جو بیماریاں ہم جسم کے اندر دبارہے ہیں یہی بیماریاں جب ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونگی یعنی کہ جب ڈی۔این۔اے (DNA) میں خرابی پیدا کرئے گی تو آنے والی نسلوں میں خوفناک بیماریاں جنم لیں گی اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بچوں میں شوگر، معذوری، دماغی بیماریاں،تھیلسیمیا، بلڈ کینسر، مسکولر ڈسٹرافی وغیرہ ان بیماریوں کی لسٹ کافی لمبی ہوچکی ہیں کچھ بیماریوں کو ابھی نام دینا بھی رہتا ہے۔

ایسا کیوں؟ یعنی اتنی عجیب وغریب بیماریاں کیوں پیدا ہوگئی ہیں کیونکہ ہم ایک زمانے سے مختلف بیماریوں کو جسم کے اندر دھکیل دیتے ہیں جیسے کی اس عظیم انسان نے تقریباً آج سے دوسو پچاس سال پہلے کہہ دیا تھا کی یہی بیماریاں جو کہ ہم نے جسم کے اندر دبادیے ہیں بعد میں کروموسومز یا ڈی۔این۔اے (DNA) میں خرابی پیدا کرکے نئی نسل میں نت نئی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

آج اس بات کو سائنسدان میں سمجھ گئے لیکن ان کے پاس تاحال کوئی حل نہیں سوائے ہومیوپیتھی کے، پوری دنیا میں لوگ ہومیوپیتھی کی طرف آرہے ہیں ہمسایہ ملک ہندوستان نے اس طریقہ علاج کے لیے بہت کام کیا اور پوری دنیا ان سے مستفید ہورہی ہیں اور ان کی معیشت میں ہومیوپیتھک ادویات کا ایک کلیدی کردار ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تاحال کوئی خاص معاونت نظر نہیں آرہی ہے جبکہ یہ دور جدید کی اہم ضرورت ہے کہ ہم متبادل طریقہ علاج پر کام کرنا شروع کردیں ورنہ مستقبل میں خطرناک صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

Back to top button