سہولیات ناپید، پھر بھی سوات کی خواتین کھلاڑی ملک کا نام روشن کرنے کےلئے پرعزم
"تائیکلوانڈو لڑکوں کا کھیل ہے، ہاتھ پاوں ٹوٹ گیا تو کوئی شادی نہیں کرے گا"
"جب میں نے تائیکوانڈو کے میدان میں قدم رکھا تو بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ لڑکوں کی گیم ہے ، تم لڑکی ہو تم سے نہیں ہوگی ، ایسی تمام باتوں کو پسںِ پشت ڈالتے ہوئے میں نے محنت جاری رکھی اور یہ ثابت کرکے دیکھا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے، ”
یہ کہنا ہے مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والی22 سالہ سفینہ نور کا جو تائیکوانڈو کی بین القوامی کھلاڑی ہے اور ساتھ بی ایس کی طالبہ بھی ہے، سفینہ کی پانچ بہنیں ہیں جن میں دو اب بین القوامی سطح پر کھیلتی ہیں۔
سفینہ نور نے 15 سال کی عمر میں ضلعی سطح پرتائیکوانڈو کھیلنا شروع کیا، نور نے قومی سطح پر پانچ مقابلے کھیلے جن میں چار سلور اور ایک گولڈ میڈل حاصل کیا اور اب اس کھیل میں بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے۔
نور کہتی ہے کہ میں نے بھی پختون معاشرے میں رہنے والے باقی تمام لڑکیوں کی طرح بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن اس مقام تک پہنچنے میں میرے والدین ہر قدم پر میرا بھرپور ساتھ دیا۔
وہ کہتی ہے کہ جب میں نے اسکول کے وقت میں ضلعی سطح پر کھیلنا شروع کیا تو معاشرے کے ساتھ ساتھ میری اساتذہ نے بھی میرا ساتھ نہ دیا اور کہتے تھے کہ لڑکوں کے گیمز کھیلنا بند کرو، ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے تو کوئی شادی بھی نہیں کریگا۔
نور کہتی ہے کہ ان تمام تر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود بھی میں نے ضلعی اور قومی سطح پر مقابلے کھیلے اور ان مقابلوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اس کے باوجود رشتہ دار اور گاؤں والے کہتے تھے کہ یہ تو لڑکی ہے پرائے گھر کی ہے کل کو کسی اور کا گھر سنبھالے گی تو گھر کے کام کاج کرنا چاہیے مگر میرے والدین نے میرا ساتھ نہ چھوڑا اور میں نے ثابت کر دکھایا کہ فزکل فٹنس صرف مردوں کا نہیں بلکہ خواتین کو بھی پورا حق حاصل ہے۔ آج میں پختون معاشرے میں رہنے والی ان تمام بچیوں کے لیے ایک رول ماڈل ہوں اور اج وہ تمام لوگ اپنے بچیوں کو خود میری مثال دیکر کہتے ہے کہ نور جیسا بننا ہے۔
نور سے جب ملاکنڈ اور سوات میں کھیلوں کے میدان یا انڈور سہولیات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کیطرف سے تمام تر سہولیات اور توجہ صرف مردوں کی جانب ہے ہمارے لئے نہ تو کوئی گراؤند موجود ہے اور نہ ہی انڈور کوئی میدان کی سہولت جس میں ہم لڑکیاں جا کر اپنے پریکٹس کیا کریں۔
اس حوالے سے جب سوات سے تعلق رکھنے والے تائیکوانڈو کے پرانے کھلاڑی اور بین الاقوامی کوچ محمد آیاز نائیک سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ملاکنڈ بھر میں خواتین کے لیے صرف ایک تائیکوانڈو کی اکیڈمی موجود ہے کیونکہ یہ پشتون معاشرہ ہے اور باقی تمام تر کھیل باہر کھلے میدان میں ہوتے ہیں تو اس لیے خواتین زیادہ تر تائیکوانڈو یا بیڈ مینٹن ہی کھیلتی ہے کیونکہ یہاں سوات میں صرف تائیکوانڈو پرائیویٹ اکیڈمی اور ایک سرکاری بیڈمینٹن کا ہال موجود ہے۔
انہوں نے خواتین کے حوالے سے مزید بتایا کہ ملاکنڈ یا سوات میں کل چار خواتین پروفیشنلی تائیکوانڈو کھیلتی ہیں ، دو کا تعلق سوات جبکہ دو کا ملاکنڈ ڈویژن سے ہے اور باقی تمام کھیلوں میں خواتین صرف سکول کے لیول پر کھیلتی ہے اور جب وہ تعلیم پورا کر لیتی ہیں تو اس کیساتھ ہی اس کی کھیلنے کے شوق پر پابندی لگ جاتی ہے کیونکہ یہاں خواتین کے لیے کوئی بھی انڈور یا آؤٹ ڈور میدان نہیں جس میں وہ اپنا پریکٹس جاری رکھ سکے۔
آیاز نے مزید کہا کہ مردوں کیساتھ ساتھ خواتین کے لئے بھی کھیلنا اور فٹ رہنا لازمی ہے کیونکہ خواتین بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور وہ بھی معاشرے میں اتنا کردار ادا کرتی ہے جتنا مرد ادا کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اب خواتین کے لیے گراسی گراؤنڈ کے قریب ایک ہاسٹل بھی بنا رہی ہے جس میں پھر پشاور، مردان اور دور دراز علاقوں کے خواتین آکر رہ سکتی ہیں۔
اس حوالے سے سپورٹس جرنلسٹ اعجاز احمد کہتے ہے کہ خیبر پختونخوا کے لڑکیوں کو پوری توجہ نہیں دی جاتی ورنہ خیبرپختونخوا میں لڑکیوں کی والی بال کی فاتح ٹیم ملاکنڈ کی ہے۔ اسی طرح کھیلوں کے ہر میدان میں لڑکیاں نمایاں نام کما سکتی ہیں۔ باالخصوص سوات میں ہر قسم کا ٹیلنٹ ہے،تعلیم اور آگاہی بھی ہے لیکن کھیلوں کے حوالے سے اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی درکار ہے، کئی علاقوں میں کھیلوں کے میدان نہیں ہیں اور اس کے علاوہ بھی کئی مسائل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں آیاز نے کہا کہ حکومت نہ تو توجہ دیتی ہے اور نہ ہی اپنے کیے ہوئے وعدے پورا کرتا ہے کیونکہ عائشہ نے متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والے تائیکوانڈو کے بین الاقوامی مقابلوں میں انڈر-ٹین کیٹیگری میں گولڈ میڈل حاصل کر کے پاکستان کا نام روشن کیا تھا اور موجودہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے وزیر اعلی ہاوس میں ان کو چھ سال کیلئے بیس ہزار روپے وظیفہ مقرر کیا تھا مگر دو سال گزرنے کے باوجود وہ وظیفہ عایشہ کو نہیں ملا تو جب باقی خواتین کو بھی حکومت کے اس قسم توجہ کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو ان کے حوصلے یقینا پس ہونگے۔
کاشف فرہان ریجنل سپورٹس آفیسرسوات سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت سوات کے ہر تحصیل میں مردوں کے لئے سپورٹس گراؤنڈ تعمیر کیے جا چکے ہے اور اس کے علاوہ حکومت خیبر پختونخوا نے یونین کونسل کی سطح پر بھی ایک سکیم متعارف کروائی ہے جس پر بھی بہت جلد کام شروع کیا جائے گا۔
رایٹ ٹو انفارمیشن کے تحت لی جانے والے معلومات کے مطابق سوات میں 8 میگا سپورٹس پراجیکٹس پر کام شروع ہوچکا ہے جس میں ایک سکیم ڈیولپمنٹ اپ تھاؤزینڈ پلیئینگ فیسیلیٹیز ان خیبرپختونخوا جس کی کل مالیت 80 ملین ہے اس پراجیکٹ میں میں چار مکمل ہو گئے ہیں جبکہ سات زیر تعمیر ہیں ، دوسرا سکیم اسٹیبلشمنٹ اف سپورٹس کمپلکس ان سوات جس کی کل مالیت 968 ملین ہیں ، تیسرا سکیم اسٹیبلشمنٹ اف ہاکی ٹرف ایٹ سوات کے نام سے ہے جس کی کل مالیت 99ملین ہیں ، چوتھا سکیم ریہیبلیٹیشن اینڈ ایمپرومنٹ اف گراسی گراؤنڈ سوات ہے جس کی مالییت 1145 میلین ہے، پانچواں سکیم کنسٹرکشن اف کرکٹ سٹیڈیم وید الیڈ فیسیلٹیز ان کالام سوات ہے جس کی کل مالیت 2467 ملین ہیں ،چھٹا سکیم ایمپرومنٹ/ ریسٹوریشن اینڈ ریہیبلیٹیشن اف ایکزیسٹینگ سپورٹس فیسیلیٹییز ہے جس کی کل مالیت 47 ملین ہیں، ساتواں اسٹیبلشمنٹ اف پلے گراؤنڈ ان خیبر پختونخوا ان نیڈ بیسز ہے جس کی کل مالیت 154 ملین ہیں اور ان تمام مردوں کے سکیموں کے علاوہ خواتین کے لیے بھی ایک اٹھواں سکیم متعراف کروائی جا چکی ہے جس کا نام ہے ایف/ایس اینڈ اسٹیبلشمنٹ اف فیمیل انڈور سپورٹس فیسیلٹیز اٹ ڈیوژنل ہیڈ کوارٹر خیبر پختونخوا سب ہیڈ کوارٹر سوات جس کی کل مالیت 100 ملین ہیں اور اس پراجکٹ پر 80 فیصد کام بھی مکمل ہو چکا ہیں۔
کاشف نے کہا کہ ابھی تک سوات سے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے پاس 300 تک خواتین کھلاڑی رجسٹرڈ ہے جو مختلف کھیلوں میں قومی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں، جب خواتین کے گراؤنڈز اور سہولیات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سوات میں ابھی تک تو کوئی گراؤنڈ موجود نہیں لیکن اس حوالے سے ایک میگا سکیم موجود ہے جس میں انڈور فیمیل سپورٹس فیسیلٹی سلیٹر ہاؤس بابوزئ سوات ہے جس پر پر کام تیزی سے جاری ہے جس کی کل ماللیت 100 ملین کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک اینٹرنیشنل سطح کی فیسیلٹی ہے جس میں خواتین آکرچادر اور چاردیواری میں انڈور گیمز کھیل پائینگی، لیکن انہوں نے بھی اس بات پر زور دی کہ سوات اور ملاکنڈ میں ٹیلینٹ تو موجود ہے مگر والدین کیطرف سے بھی بچیوں کا ساتھ دینا انتہائی ضروری ہے اگر والدین ان بچیوں کا بھر پور ساتھ دینگے تو ہمارے لئے بھی اور ان بچیوں کے لئے بھی آسانیاں پیدا ہونگی اور مردوں کی طرح یہ خواتین بھی کھیلوں کے میدان میں اپنا اور ملک کا نام روشن کرینگی۔