Blog

ابنِ آدم (دوئم)

تحریر: سیماب راجپوت

میں روزانہ اس کو دیکھتی اور سوچتی کہ جتنی نرماہٹ بھری آواز میں یہ ہر ایک فردکو سمجھاتی ہے،ہر معاملے میں مکمل راہنمائی فراہم کرتی ہے اپنے کام کو عشق سمجھ کے کرتی ہے،ایسا عشق جو شاید ہی کبھی کسی نے کیا ہو۔اپنے کام ہی کو عشق سمجھنے والے اکثرعشق کوبھی کام ہی کی طرح برت جاتے ہیں۔کبھی کبھی میں سوچتی ہوں شاید ا س نے بھی ایسا ہی کیا ہو۔
عاجزی کی بات کروں تو تو وہ بدرجہء اعلیٰ اُس میں پائی جاتی ہے کبھی کبھی تو مجھے گمان ہونے لگتا کہ دشمن بھی اس کے سامنے آجائے تو محترمہ فرمائیں گی۔خوش آمدید!”بیٹھیے،فرمائیے کیا لیں گے آپ؟کیا اپنا سر قلم کروا کر چاندی کی طشتری میں رکھ کر آپ کو پیش کروں؟“
ہمہ وقت چہرے پر اداس سی مسکان مگر حوصلہ کڑی چٹان،سرو جیسی باوقار قامت،ماتھے پر ذمہ داری اور تفکّر کی لکیریں،آنکھیں خودداری سے
بھرپور،الغرض سرتا پاحوصلے اور برداشت کاایک نایاب مجسمہ تھی وہ۔۔۔
آتے جاتے روزانہ میں خلوص کے اس مجسمے کو دیکھتی اور پھر کچھ سوچ کر دل میں لاکھوں دعائیں دیتی کہ اے اللہ اس پرخلوص بندے کو تُو نے وہ آنکھ دی ہے جو اکثر دوسروں کے دکھوں پر بھی چھلک جاتی ہے اے اللہ اس کی آنکھوں کو کبھی آنسوؤں سے نم نہ کرنا۔آمین۔بظاہر دبلی پتلی
کمزور سی نظر آنے والی اس لڑکی کو اللہ نے ہمت ایسی کمال دی تھی کہ کیا کہنے،اور پھر اپنی عطا کی ہوئی اس ہمت کا امتحان بھی تو اسی نے لینا تھا کیونکہ وہ ذات تو علیم و حکیم ہے وہ سب جانتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اور میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے“ایک اور جگہ پر قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”میں کسی بھی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا“اس کا مطلب یہ ہوا جب کوئی بوجھ ہم پر آتا ہے تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اس کو برداشت کرنے کی ہمت بھی ہمیں عطا فرما دیتے ہیں۔ہم انسان ازل کے نافرمان،ناشکرے،بے صبرے اس بات کو
سمجھ ہی نہیں پاتے۔
سونہ چاہتے ہوئے بھی بالآخر وہ دن بھی مجھے دیکھنا پڑا جب اس معصوم کا کڑا امتحان تھا اور میری وہ دعا کہ”اے اللہ اس معصوم کی آنکھ میں آنسو نہ لانا“ کسی مصلحت کی بنا پر رب کے حضور ردہوگئی اور وہ میرے ہی کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔اس وقت مجھے ایسا لگا کہ میں اس کے آنسوؤں کے سمندر میں بہہ جاؤں گی مگرمیں نے اسے دانستہ چپ نہیں کروایا رونے دیا کیونکہ میرا ماننا یہ ہے جو آنسو ہم اپنے اندر اکھٹے کر لیتے ہیں وہ آگ بن جاتے ہیں اس آگ سے ہم اپنا آپ تو جلاتے ہی ہیں اسی کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی وہی آگ انگاروں کی صورت ہماری زبان پر بھی آجاتی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے ہمراہ دوسروں کو بھی اس آگ میں جلا ڈالتے ہیں اور یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ جس کو ہم نے اپنے لفظوں سے جلا ڈالا وہ کوئلہ تھا یا ہیرا؟ اس لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ آنسوؤں کو بہہ جانے دیا جائے چاہے وہ آپ کے ہوں۔۔۔۔ یا کسی اور کے۔۔۔۔سو میں نے اس گلزار کو آگ نہ بننے دینے کے خیال سے رونے دیا وہ بھی جی بھر کر!!!
وہ روئی اور جی بھر کر روئی اس نے دو جملے کہے جو آج بھی مجھے یاد ہیں انہی دو جملوں میں اس کی ساری داستان پنہاں ہے۔اس نے کہا
”میں نے کبھی رب سے اپنے لیے کچھ مانگا ہی نہیں تھا“پگلی جب مانگا ہی نہیں تھا تو پھر رونا کیسا ۔میرا رب تو وہ ربِ کریم ہے جو ان کو بھی عطا کرتا ہے جو دوسروں کے دروں پہ جا جا کر مانگتے ہیں۔تم مانگ کر تو دیکھتی! ابھی بھی اس کی طرف سے آئی ہوئی جن آزمائشوں کو تم اپنے راستے کے پتھر اور کنکر سمجھ رہی ہو وہ دراصل تمھاری کہکشائیں ہیں اس رب ِ کائنات نے تمھارے لیے وہ بہترین سوچ رکھا ہو گا جو تم فی الوقت تمھارے ادراک میں بھی نہیں آسکتا۔
اُس کا دوسرا جملہ تھا کہ مجھے بڑی امید تھی کہ”وہ“ کچھ نہ کچھ کرے گا۔۔۔ پر وہ پگلی کیا جانے جس کو وہ اپنا شام سلونا شاہ پیا مان کر اس کی پوجا کر بیٹھی تھی۔ وہ ایک عام سا مجبور اور بزدل مرد تھا کہیں سنا تھا یا پڑھا تھا میں نے کہ بزدل مرد کسی بھی عورت کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوتا ہے۔
مگر واہ رے محبت!محبت کرنے والے کو کبھی بھی محبوب کے عیب نظر نہیں آتے۔اسی لیے تو شاید کہا جاتا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔
لیکن آج کل کے جوانوں کی محبت مجھے اندھی ہونے کے ساتھ ساتھ گونگی، لنگڑی،بہری، اور بزدل بھی لگتی ہے۔کیونکہ مجھے ہمیشہ زمانے میں مرد صرف ایک صورت میں مجبور نظر آیا ہے کہ جب وہ بیٹی کا باپ ہو۔باقی کسی حالت میں مرد مجبور نہیں ہوتا ہاں محبوس ضرور ہو سکتا ہے اپنی کم ہمتی کے زنداں کے اندر۔۔۔۔
وہ ہمت والی اور باشعور لڑکی اِس بات کو اُس وقت غیر ارادی طور پر نظر انداز کیے ہوئے تھی کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں ”جو تم اپنے لیے پسند کر لیتے ہو بعض اوقات وہ تمھارے لیے اچھا نہیں ہوتا اور جو میں تمھارے لیے پسند کرتا ہوں وہ تمھارے لیے بہتر ہوتا ہے“
میرا یقین ہے اس پُر خلوص لڑکی کے لیے بہترین اجر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس محفوظ کر رکھا ہے۔پروردگار اسے اس شخص کی محبت عطا کریں گے،جو اس کے قابل ہو گا۔ یہ مجبور شخص اس کے قابل ہی نہیں تھا اور یہ بات اللہ تعالیٰ جانتے تھے۔میرا یقین اس بات پر بھی ڈٹا ہوا ہے کہ جس باوقار انداز میں اس لڑکی نے اپنی زندگی کو بسر کیا اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی باقار چاہنے والا عطا کریں گے۔
لیکن اس یقین کے ساتھ ساتھ میرے کچھ سوال اس معاشرے کے اُس”ابنِ آدم“سے ہیں جو مجبورتھا، بزدل تھا،بے بس تھا کچھ نہ کر پایا اپنے حالات کے آگے۔۔۔میں اس کو اتنا کہوں گی۔۔۔
؎ حالات سے سہمے ہوئے لوگوں کو بتا دو
حالات بدل جاتے ہیں ٹھہرا نہیں کرتے
کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس شخص کے سامنے جاؤں اور اسے گریباں سے پکڑوں اور جھنجھوڑ کر پوچھوں! جب تم نے اس معصوم کو محبت کے سبز باغ دکھائے تھے کیا تم اس وقت بے بس نہیں تھے کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ایک بے بس اور بزدل محبت نہیں کر سکتا یہ کام ہے ہمت والوں کا۔محبت کرنے والے کبھی بزدلی نہیں دکھاتے کسی حال میں بھی نہیں۔سو تم نے محبت کی ہی نہیں۔۔۔۔۔اگر تم اس حقیقی محبت کرتے تو اس کے دکھی دل کواور پارہ پارہ نہ کرتے پھر انہی ٹکروں پرچلتے ہوئے اپنی نئی راہوں پر نہ نکل جاتے۔
تم تو مرد ہو اور تمھارے لیے محبت ایک قصّہ ہے شروع کیا اور ختم۔جبکہ وہ ایک عورت ہے اس کے لیے تمھاری یہ برائے نام کی محبت پوری زندگی کی داستان بن گئی ہے۔کبھی نہ ختم ہونے والی داستاں۔۔۔۔
کاش کہ جب تم اس سے محبت کے دعوے کر رہے تھے تو تم اس وقت بھی اپنے عزیزو اقربا،اپنے حالات و خیالات سے پوچھ لیتے کہ کیا میں
محبت کر لوں یا نہ کروں۔۔۔۔کم ازکم اس معصوم کا کانچ سادل تو بچ جاتا ٹوٹنے سے۔۔۔۔۔
میری دست بستہ التجا ہے ان مجبور مردوں سے جو کسی کو محبت کی آخری حد پر لاتے ہیں پھربے بسی اور مجبوری کا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں،باخدا محبت کرنے سے پہلے اپنے ماں باپ۔اور خاندان والوں سے محبت کر نے کاپرمٹ لے لیا کریں یا پھر کسی معصوم کو محبت کے میٹھے اور سہانے خواب نہ دکھایا کریں۔۔۔
ایسے ہی مجبوروں اور بے وفاؤں کے نام ایک شاعر ذاکر خان نے بہت خوب لکھا ہے جس کو میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ آپ کی نذر کرنا چاہوں گی کیونکہ اب مجھ سے مزید کچھ لکھا نہیں جائے گا قلم بھی آزردہ ہے اور سیاہی بھی رو پڑی ہے۔۔۔۔۔۔اب میں خودمزید کچھ نہیں کہوں گی۔۔۔۔۔۔ذاکر خان کہتے ہیں۔۔۔۔۔
”میرے کچھ سوال ہیں جو صرف قیامت کے روز پوچھوں گا (گی)
تم سے۔۔۔۔
کیونکہ اس سے پہلے میری اور تمھاری ملاقات ہو۔۔۔
اس لائق نہیں ہو تم!!!

Back to top button