پاکستان انفارمیشن کمیشن نے تیسری سالانہ رپورٹ جاری کردی، 60 فیصد شکایات زیرالتواء
کمیشن کو کل 1734 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں 696 شکایات پر وفاقی محکموں کی جانب سے معلومات فراہم کی گئیں
ندیم تنولی
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے تیسری سالانہ رپورٹ جاری کردی، کمیشن کو موصول ہونے والی 60 فیصد شکایات زیرالتواء ہیں، 40 فیصد شکایات پر شہریوں کو کمیشن کی مداخلت کے بعد معلومات فراہم کی گئیں، تفصیلات کے مطابق پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنی تیسری سالانہ رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر جاری کردی ہے، رپورٹ کے مطابق کمیشن کو قیام کے بعد سے اب تک کل 1734 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں 696 شکایات پر وفاقی محکموں کی جانب سے معلومات فراہم کئے جانے کے بعد نمٹا دیا گیا ہے جبکہ باقی شکایات پر کاروائی مختلف مراحل میں ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن نے 395 شکایات پر تفصیلی فیصلے بھی جاری گئے ہیں جن پر عمل درآمد مختلف مراحل میں ہے۔
کمیشن کو سب سے ذیادہ شکایات وزارت دفاع اور اس سے منسلک اداروں سے متعلق ہوئی ہیں جبکہ وزارت قانون و انصاف 44 شکایات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن کو سپریم کورٹ آف پاکستان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف کل 42 شکایات موصول ہوئیں جبکہ وزارت خزانہ کے خلاف 37 شکایات موصول ہوئیں۔
سالانہ رپورٹ میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے مفاد عامہ کے چند اہم فیصلوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق معلومات تک رسائی کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے ایک شہری نے مختلف کنٹونمنٹ بورڈز اور جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر صفائی کی خدمات سرانجام دینے والے سینیٹری ورکرز کو بنیادی تنخواہ سے کم تنخواہ ادا کرنے کی نشاندہی کی، کمیشن کے توسط سے درکار معلومات اور دستاویزات حاصل کرنے کے بعد مذکورہ اداروں نے سینیٹری ورکرز کی تنخواہیں بڑھائیں۔
کمیشن نے اپنے فیصلوں میں اسلام آباد کلب اور سوئی نادرن گیس پائپ لائن لیمیٹڈ کو پبلک باڈی قرار دیتے ہوئے معلومات تک رسائی کے قانون سال 2017 کے تحت شہریوں کو معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح ایک اور فیصلے میں انفارمیشن کمیشن نے یہ طے کیا ہے کہ ہسپتالوں کے پاس موجود مریضوں کا ریکاڑڈ اس مریض اور اس کے رشتہ داروں کا حق ہے اور وہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے مجاز ہیں۔