معلومات تک رسائی

ہائی کورٹس میں زیرالتوا کیسز معلومات تک رسائی میں بڑی رکاوٹ

اسلام آباد:  پاکستان انفارمیشن کمیشن کے 65 فیصلوں کے خلاف دائر پٹیشنز ملک کے مختلف ہائی کورٹس میں طویل عرصے سے زیرالتوا ہیں جن کی وجہ سے شہری معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔

دی رپورٹرز کو دستیاب معلومات کے مطابق مختلف سرکاری اداروں نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی بجائے 73 فیصلوں کے خلاف مختلف ہائی کورٹس سے رجوع کیا ہے۔ جن میں 5 پٹیشنز پر ہائی کورٹ نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلوں کو برقرار رکھا، 2 پٹیشنز میں انفارمیشن کمیشن کے فیصلوں کو مسترد کیا ہے۔ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک پٹیشن کو خارج بھی کیا ہے۔

ہائی کورٹس میں زیرالتوا 65 پٹیشنز  میں سے 36 پر ہائی کورٹس کی جانب سے انفارمیشن کمیشن کے فیصلوں کومعطل کرکے  حکم امتناعی یعنی سٹے آرڈر جاری کررکھے ہیں جس کے باعث انفارمیشن کمیشن ان پر عمل درآمد کے لئے کاروائی نہیں کرسکتا،  جبکہ 29 پٹیشنز پر ہائی کورٹس نے فریقین کو نوٹسز جاری کررکھے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹس نے انفارمیشن کمیشن کے جن دو فیصلوں کو مسترد کیا ہے ان میں عامر اعجاز برخلاف کامسیٹس  یونیورسٹی اسلام آباد اور محمد ریحان پراچہ برخلاف پی ٹی سی ایل ہیں۔ عامر اعجاز برخلاف کامسیٹس فیصلے میں شہری نے یونیورسٹی میں داخلہ ٹیسٹ کا جوابی پرچہ طلب کیا تھا ، انفارمیشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کامسیٹس یونیورسٹی کو جوابی پرچے کی کاپی شہری کو فراہم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمیشن کا یہ فیصلہ مسترد کردیا تھا۔ اسی طرح پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنے ایک فیصلے میں پی ٹی سی ایل کو پبلک باڈی قرار دیتے ہوئے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت جوابدہ قرار دیا تھا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے انفارمیشن کمیشن کا یہ فیصلہ بھی مسترد کردیا تھا۔

شہری محمد نواز نے سروے آف پاکستان کے خلاف اپنی اپیل  پر جاری کئے گئے انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد کےلئے اسلام آباد ہائی کورٹس سے رجوع کیا تھا تاہم ہائی کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کردی تھی۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹس سے رجوع کرنے والے اداروں میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا رجسٹرار آفس، کابینہ ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ دویژن، اسلام آباد کلب ، پاکستان نرسنگ کونسل و دیگر شامل ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے شہری مختار احمد علی کی اپیل پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار آفس کو آڈٹ رپورٹ اور اسامیوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سپریم کورٹ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت شہریوں کو معلومات فراہم کرنے کا پابند نہیں ہے۔یہ معاملہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔

کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر  کی تفصیلات اور توشہ خانہ سے متعلق پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے، مذکورہ فیصلے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہیں۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ڈاکٹر فرحت محمود و دیگر کی ایک اپیل پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس ڈویلپمنٹ کو منٹس آف میٹنگ  فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے خلاف ادارے نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے  پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کی جاری کردہ چار سالہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق انفارمیشن کمیشن نے کل 661 فیصلے جاری کئے ہیں جن میں سب سے ذیادہ 58 فیصلے منسٹری آف ڈیفنس اور اس کے ذیلی اداروں کے خلاف جاری کئے ہیں۔

انفارمیشن کمیشن نے سی ڈی اے کے خلاف 20، ایف پی آر کے خلاف 16 اور وزارت داخلہ سے متعلق 14 فیصلے جاری کئے ہیں۔

وزارت قانون و انصاف اور وزارت داخلے سے متعلق 12، ایف آئی اے اور نیشنل بینک سے متعلق 13 ، نادرا اور الیکشن کمیشن سے متعلق 11 جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور نیشنل اسمبلی سے متعلق 10 تفصیلی فیصلے جاری کئے ہیں۔

Back to top button