خبریں

معروف ایپ ٹویٹر نے اپنے دفاتر عارضی طور پر بند کر دئیے

دنیا بھر میں مقبول ترین ایپ ٹویٹر نے اپنے دفاتر عارضی طور پر بند کر دئیے، ٹویٹر ملازمین دفاتر تک رسائی سے بھی محروم ہو گئے۔برطانوی میڈیا کے مطابق ٹویٹر دفاتر 21 نومبر کو کھولے جائیں گے تاہم ٹویٹر کی جانب سے دفتار بند کرنے کی وجوہات سے متعلق نہیں بتایا گیا۔ دنیا کے امیر ترین شخص اور سپیس ایکس اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون ماسک نے ٹویٹر پر ایک تصویر شئیر کی جس میں ٹویٹر کی قبر بنی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔
بعدازاں ٹویٹر پر ریسٹ اِن پیس ٹویٹر کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرنے لگ گیا۔

ٹویٹر کے ملازمین کو الٹی میٹم دیا گیا تھا کہ وہ یا تو چھوڑ دیں یا پھر کام زیادہ کریں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹویٹر کے مالک کی جانب سے الٹی میٹم دئیے جانے کے بعد متعدد ملازمین نے کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ایلون مسک نے اہم ایگزیکٹوز کے مستعفی ہونے کے بعد خبردار کیا تھا کہ ٹویٹر کو یومیہ 4 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جس کے باعث ٹویٹر دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔

نشریاتی ادارے کے مطابق انہوں نے ملازمین کے لیے کی گئی اپنی پہلی ای میل میں معذرت کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا کہ ای میل کے علاوہ آپ کو آگاہ کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر انہوں نے مخصوص آمدنی کے لیے نئے طریقے تلاش نہ کیے تو ٹویٹر آنے والی معاشی حالات کو زیادہ طویل عرصے تک روک نہیں پائے گا اور اس بات کے چانس زیادہ ہوں گے کہ ٹویٹر کام نہیں کر سکے گا۔

ٹویٹر کے کچھ مشتہرین جو کہ اس کی آمدنی کا اہم ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ،مسک کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کمپنی سے دورہو رہے ہیں، جس سے آمدنی میں کمی آئی ہے۔ مسک نے ملازمین کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو روزانہ 4 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس وقت 13 بلین ڈالر کا مقروض ہے، آئندہ 12 ماہ میں اس کو 1.2 بلین ڈالر کی سود کی ادائیگی کرنا ہے۔

جو کہ ٹویٹر کی 30 جون 2022تک کی مالیاتی دستاویزات کے مطابق، ٹویٹر کے 1.1 بلین ڈالر کے حالیہ نقد بہاؤ سے زیادہ ہے۔مسک کی جانب سے اس ہفتے کو ٹویٹر کے 7,000 ملازمین میں سے 50 فیصد کو مبینہ طور پر فارغ کرنے کے بعد، ٹویٹر کے اعلیٰ عہدے داروں نے اپنی مرضی سے کام چھوڑ دیا ہے۔ان میں ٹویٹر کے ٹرسٹ اینڈ سیفٹی کے سربراہ یوئل روتھ ،ٹویٹر کے چیف پرائیویسی آفیسر ڈیمین کیران اور چیف انفارمیشن سیکیورٹی آفیسر لیا کسنر شامل ہیں،انہوں نے اپنے استعفے پیش کر دیئے ہیں ۔

Back to top button