ہیلتھ اینڈ سائنٹیفک سیمینار برائے الٹرنیٹیو میڈیسن
دی اوپن انٹرنیشنل یونیورسٹی فار کمپلیمنٹری میڈیسن کولمبو سری لنکا، الٹرنیٹیو میڈیسن کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک مثال ہے الٹرنیٹیو میڈیسن میں مختلف قسم کے ڈگری کورسز یہاں سے ہورہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ الٹرنیٹیو میڈیسن یعنی متبادل طریقہ علاج کی ترقی اور آگاہی میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں پوری دنیا میں آگاہی برائے ہیلتھ اور الٹرنیٹیو میڈیسن کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں متبادل طریقہ علاج کے بارے میں سائنٹینفک لیکچرز اور ریسرچ پیش کئے جاتے ہیں جن میں ہومیوپیتھی، نیچروپیتھی، آکوپنکچر،ہربل وغیرہ شامل ہیں، اور اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال پاکستان میں بھی دوسری بار ہیلتھ اینڈ سائنٹیفک سیمینار برائے الٹرنیٹیو میڈیسن منعقد ہونے کی تمام تر تیاریاں مکمل کی جاچکی تھیں لیکن بدقسمتی سے کورونا وائرس کے وجہ سے منعقد نہ ہوسکی اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں سیمینار منعقد کروانی پڑھ گئی جس میں انتہائی کم تعداد میں ڈاکٹرز نے تمام تر ایس۔او۔ پیز۔ کے ساتھ شرکت کو یقینی بنایا۔
خیبرپختونخواہ کے لیے بھی خوش قسمتی رہی کہ صوابی جیسے تاریخی شہر کو اس عالمی سیمینار کی میزبانی نصیب ہوئی حالانکہ ان مشکل حالات میں سیمینار کے انتظامات اس قدر تو نہ تھے جیسے اس سیمینار کی تاریخ رہ چکی ہے لیکن خیبرپختونخواہ سے اوپن یونیورسٹی فار کمپلیمنٹری میڈیسن کولمبو سری لنکا کے پروفیسرڈاکٹر سمیع الحق صاحب نے انتہائی کم وقت اور تمام تر سہولیات نہ ہونے کے باوجود اچھا خاصہ سیمینار منعقد کروایا تھا، واقعی یہ ایک مشکل کام تھا لیکن انکی خوش بختی یہ رہی کہ انہیں ڈاکٹر حضرت علی صاحب کا ساتھ رہا جو کہ صوابی و پشاور میں ہومیوپیتھک ہسپتال چلا رہے ہیں
انہوں نے اس سیمینار کو منعقد کروانے میں کافی مدد کی تھی۔مجھے بھی سیمینار میں شرکت کرنے کے لیے دعوت دی گئی،ڈاکٹر نصیر محمد صاحب جو کہ میرے قریبی ساتھیوں میں ہیں ان سے رابطہ ہوا سیمینار کے بارے تبادلہ خیال ہوا اور ساتھ چلنے کی دعوت دی، جمعہ المبارک کے دن ویسے بھی مصروفیات زیادہ ہوتی ہیں لیکن صبح کے دس بجے سیمینار میں پہنچنا تھا خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جمعہ کے دن کافی دُھند تھی اور اسی وجہ سے سیمینار میں کافی دیر سے پہنچے، جیسے ہی پہنچے تو سامنے مسکراتا ہوا چہرہ ہمارے منتظر تھا.
ڈاکٹر حضرت علی جو کہ اس سیمینار کے آرگنائزر بھی تھے انہوں نے پرتپاک استقبال کیا ہال میں پہنچ کر دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی، اسلام آباد سے آئے ہوئے میرے بی۔ایچ۔ایم۔ایس کے کلاس فیلوڈاکٹر امداد حسین صاحب اور ان کے ساتھ ایشین ہومیوپیتھک لیگ کے ایگزیکٹیو ممبر جناب سیدگل ضمیر شاہ صاحب جو کہ مہماناں خصوصی میں شامل تھے، پہلے سے پہنچ چکے تھے تھوڑی سے شرمندگی بھی ہوئی کہ ہم مردان سے اس قدر دیر سے پہنچے اور وہ اسلام آباد سے پہنچ گئے۔خیر آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پشاور سے ہر دلعزیز ہمارے دوست ڈاکٹر گل مند صاحب بھی پہنچ چکے تھے جو کہ بنیادی طور پر ایلوپیتھک ڈاکٹر ہے اور اسی کی پریکٹس کرتے ہیں.
اس کے علاوہ مہماناں خصوصی میں جناب ڈاکٹر سہیل محمد اور ڈاکٹر حفیظ الودود بھی موجود تھے یہ دونوں عظیم شخصیات ِ ہومیوپیتھی ہیں ان کی خدمات قابل تعریف اور قابل تحسین ہیں تقریباً پورے خیبرپختونخواہ میں زیادہ تر ڈاکٹرز انہیں کے شاگرد ہیں میرے بھی سینئر ہیں اور انہیں کی دیکھا دیکھی کرتے ہم آگے بڑے،پروگرام کا باقاعدہ آغاز سے پہلے پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کی توحیرت ہوئی کہ الٹرنیٹیو میڈیسن میں خیبرپختونخواہ کے چند ڈاکٹرز نے اوپن یونیورسٹی فار کمپلیمنٹری میڈیسن کولمبو سری لنکا سے (ایم۔ ڈی الٹرنیٹیو میڈیسن)کی باقاعدہ ڈگری کورس مکملکرلی ہے اور آج انہیں باقاعدہ ڈگری ایوارڈ کی جائے گی۔یہ حیرت اس وقت مزید بڑھ گئی جب مجھے پتا چلا کہ انہی ڈاکٹرز میں ڈاکٹر گل مند صاحب جو کہ ایلوپیتھک میڈیکل سسٹم سے وابستہ ہیں، وہ بھی شامل ہیں، اس بات کا علم تو پہلے ہی تھا کہ انہوں نے باقاعدہ ہومیوپیتھی بھی پڑھی ہے اور اس کے حامی بھی ہے لیکن وہ الٹرنیٹیو میڈیسن میں بھی ایم۔ڈی کریں گے یہ بات میرے لیے ناقابل یقین تھی لیکن مجھے انتہا کی خوشی ہوئی پروگرام کا باقاعدہ آغاز کلام پاک سے ہوا اور پھر یونہی سلسلہ شروع ہوا مختلف لیکچرز متبادل طریقہ علاج کی افادیت اور نئی ریسرچ کے حوالے سے پیش کئے گئے کہ کس طرح ہیلتھ چیلنجز بڑھ رہی ہیں اور متبادل طریقہ علاج کس قدر اہم کردار ادا کررہی ہے.
پوری دنیا اس وقت متبادل ادویات یا طریقہ علاج کی طرف آرہے ہیں پاکستان کو بھی اس حوالے سے پیش رفت کی ضرورت ہے اور دنیا کی طرح بیسٹ پریکٹسس متعارف کروانا چاہیے، مہمان خصوصی ڈاکٹر سہیل محمد صاحب اور ڈاکٹر عبدالحفیظ ودود صاحب نے بھی اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیا طب میں متبادل طریقہ علاج کی اہمیت کے بارے میں شرکاء سے خطاب کیا اور اس کے ساتھ ہومیوپیتھی جو کہ دوسرا بڑا طریقہ علاج ہے کے بارے میں نئی راہیں اور ریسرچ کے حوالے سے بات کی، قابل تعریف سینئرز کی بات ختم ہوئی تو ہال تھالیوں سے گونج اُٹھا اور اس کے ساتھ ہی کمپئر انعام اللہ نے دھیمی سی آواز میں مجھے سٹیج پر دعوت دی کہ الٹرنیٹ میڈیسن کے حوالے سے لیکچر پیش کرسکوں حالانکہ میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ بضد تھے.
میرا ماننا تھا کہ جہاں ہمارے اس قدر سینئر موجود ہوں ان کی موجودگی میں بات کرنا مناسب نہیں خیر وہ نہیں مانے، اور ساتھ میں یہ پروانہ بھی دیا کہ گیسٹ آف آنر کے آنے تک آپ نے لیکچر جاری رکھنا ہے خیر انٹی بائیوٹیکس مزاحمت اور دنیا میں متبادل ادویات کی نئی ریسرچ کے حوالے سے لیکچر کا آغاز کیا کہ کس طرح آ ج ہم انٹی بائیوٹیک مزاحمت کے دور سے گزر رہے ہیں اور آنے والے وقتوں میں ہمارے پاس کیا حل ہے، اسی حوالے سے متبادل ادویات کے بارے میں تفصیلاً بات ہوئی کہ دنیا متبادل طریقہ علاج کی طرف آرہی ہیں۔
پاکستان کا اس حوالے سے کیا کردار ہے اور کیا ہونا چاہیے آگاہی ہیلتھ کا انتہائی فقدان ہے ہمارے ملک میں اس کی وجوہات اور حل کے بارے میں مختلف چیزیں بیان کرنے کی کوشش کی اور اتنے میں جس شخصیت کی انتظار ہورہی تھی وہ آپہنچے،جناب پروفیسر ڈاکٹرسید اسماعیل صاحب جو کہ پاکستان میں یونیورسٹی کوارڈینٹر ہیں،اس کے ساتھ ہی نماز اور طعام کے لیے وقفہ ہوا،دوسرا سیشن جلد ہی شروع ہوا اور خیبرپختونخواہ سے آئے ہوئی ڈاکٹرز جن کی کسی نہ کسی حوالے سے خدمات قابل تعریف تھی انہیں شیلڈ پیش کئے گئے اور اس کے بعد ایم۔ڈی الٹرنیٹیو میڈیسن کی ڈگری مکمل کرنے والے ڈاکٹر صاحبان کو ڈگری ایوارڈ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جن میں ڈاکٹر گل مند صاحب، ڈاکٹر حضرت علی صاحب ودیگر شامل تھے، ان دونوں کو اعلیٰ کارکردگی اور مقالہ پیش کرنے پر اوپن یونیورسٹی فار کمپلیمنٹری میڈیسن کولمبو سری لنکا کی طرف سے گولڈمیڈل بھی دئیے گئے۔ اور مستقبل میں ان کی کامیابی کے لئے تعریفی کلمات بھی ادا ہوئے۔ اسی کے ساتھ ہی آرگنائزر کمیٹی کے صدر نے اس عزم کے ساتھ کہ آئندہ بھی متبادل طریقہ علاج کی ترقی وآگاہی کے لئے پاکستان میں سیمینار کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا، تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا گیا۔