Blog

اور کشمیری یتیم ہو گئے…!!

تحریر: تابش عباسی

دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں جو شاید سب کچھ اپنی خواہشات و محنت کے مطابق حاصل کر لیتے ہیں پر جوں ہی ان کی سانسیں رکتی ہیں لوگ بھی انہیں بھول جاتے ہیں ۔ پر ایک ایسی بھی قسم انسانوں کی موجود ہے جو اپنا آج ، اپنی نسلوں و قوم کے کل پر قربان کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں ، شاید ایسا ہی ایک نام نامور و بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی صاحب (شہید) کا بھی ہے ۔ سید علی گیلانی صاحب نے اپنی محنت و اپنے خون سے تحریک آزادی کشمیر و تحریک تکمیل پاکستان کو وہ جلا بخشی ہے کہ سید علی گیلانی صاحب اب ایک شخص نہیں بلکہ آزادی کشمیر کا ایک نا ختم ہونے والی جدو جہد مسلسل کا دوسرا نام بن چکے ہیں –
سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے ۔ پاکستان سے محبت شاید پیدائش کے وقت سے ہی آپ کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہی تھی –

سید علی گیلانی صاحب نے دو شادیاں کیں تھی – آپ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں – آپ کا ایک بیٹا ڈاکٹر جبکہ دوسرا زرعی یونیورسٹی سرینگر میں لیکچرر ہے – آپ کی بیٹیاں اور خاندان کے دوسرے افراد بھی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہیں -1953 سے لے کر 2004 تک آپ جماعت اسلامی کے ممبر رہے ، پر 2004 میں ممبر شب سے استعفیٰ دے دیا-اس کے بعد تحریک حریت کی بنیاد رکھی -جون 2020 تک چیئرمین حریت کانفرنس رہے اور اس دورانیے میں بہترین قائدانہ صلاحیتوں سے تحریک کو نئی جلا بخشی- آپ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر سوپور حلقہ سے تین مرتبہ ( 1972 ، 1977, 1987) ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے-
تعلیم کے حصول کے لیے گیلانی صاحب نے لاہور بھی وقت گزارا – تکمیل تعلیم کے بعد ، جموں کشمیر واپس جا کر جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس میں عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا –
1946 میں مولانا سید مسعودی صاحب سے آپ کی ملاقات ہوئی ،جس میں مولانا سید مسعودی صاحب نے آپ کو نہایت ذہین اور محنتی پایا – مولانا صاحب جو اس وقت نیشنل کانفرنس کے سیکرٹری جنرل بھی تھے ، انہوں نے گیلانی صاحب کو جماعتی اخبار ” اخبار خدمت” کا رپورٹر بنایا – مسعودی صاحب نے گیلانی صاحب کی اعلی تعلیم مکمل کرنے میں مالی معاونت بھی کی ، جس کی وجہ سے گیلانی صاحب اردو ، انگلش ، فارسی وغیرہ پر دسترس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے- تعلیم حاصل کرنے کے بعد ، گیلانی صاحب نے پتھری مسجد ، سرینگر میں معلم کی حثیت سے پہلی باقاعدہ نوکری کا آغاز کیا –

مولانا مودودی کے ایک پیروکار ، صلاح الدین ترابی سے آپ کی قربت تھی ۔ آپ نے مودودی صاحب کی کتب ان سے ادھار لے کر پڑھنا شروع کی اور آہستہ آہستہ جماعت اسلامی کے قریب تر ہوتے گئے ۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو میرے دل میں تھا وہ مودودی صاحب نے کتاب کی شکل میں میرے سامنے لا کھڑا کیا – یوں ، آپ باضابطہ جماعت اسلامی کی طرف راغب ہوئے-
پھر ، گیلانی صاحب سرینگر سے سوپور کی طرف واپس آ گئے اور انٹر میڈیٹ کالج میں پڑھانا شروع کیا ۔ ان چھ سالوں میں گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی کے نصاب کو خوب پڑھا اور ساتھ اپنے شاگردوں کو بھی اس طرف راغب کیا ۔
1953 میں باقاعدہ طور پر جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کی ۔
بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں تحریک چلانے کی وجہ سے ہندوستانی حکومت نے 1981 میں آپ کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور اس کے بعد صف 2006 میں آپ کو حج کے لیے جانے کی اجازت دی گئی جو کہ آپ کی زندگی کا ہندوستان سے باہر جانے کا آخری واقعہ تھا-

2007 میں آپ کو کینسر کی تشخیص ہوئی – علاج کے لیے ڈاکٹروں نے انگلینڈ یا امریکہ جانے کا مشورہ دیا ۔ امریکہ نے آپ کو ویزہ شاید ہندوستانی حکومت کے دباؤ میں آ کر مسترد کر دیا اور بہانہ یہ رکھا کہ کشمیر کی تحریک کو پرتشدد بنانے میں گیلانی صاحب کا ہاتھ ہے –
عمر عبد اللہ ہمیشہ ہی سید علی گیلانی صاحب کی پاکستان سے محبت اور تحریک تکمیل پاکستان کے لیے جدو جہد کو وادی میں تشدد اور فوجی کاروائیوں کی وجہ قرار دیتے رہے جبکہ عمر عبد اللہ کے والد فاروق عبد اللہ بھی ہمیشہ گیلانی صاحب کے دل سے پاکستان سے محبت کو مٹانے کی ناکام کوششیں کرتے رہے ۔
سید علی گیلانی صاحب کو ایک دھچکا اس وقت بھی لگا ، جب 2014 کے عام انتخابات میں انہوں نے کشمیریوں سے انتخابات سے بائیکاٹ کرنے کا کہا – پر اس الیکشن میں اس کے متضاد وہ ہوا جو گزشتہ 25 سال میں نہ ہوا تھا – 65 فیصد کشمیریوں نے اپنا رائے حق دہی استعمال کیا – ہندوستان اور ہندوستانی میڈیا کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل گیا کہ کشمیریوں کی اکثریت سید علی گیلانی صاحب سے الگ نظریہ رکھتی ہے اور شاید یہی کشمیریوں کے موجودہ حالات کی ایک وجہ بھی ہے – شاید مرد حق سید علی گیلانی 2014 میں جو مستقبل کے خطرات دیکھ رہے تھے ان کو پوری دنیا میں 2019 میں عملی طور پر ہوتے دیکھا ۔ عمر عبد اللہ ، محبوبہ مفتی کو بھی یہ بات ماننا پڑی اور وہ کہہ اٹھے کہ شاید ہمارے بزرگوں کا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ غلط تھا اور یوں سید علی گیلانی اور ان کے نظریہ الحاق پاکستان کی جیت ہوئی ۔2016 میں برہان وانی شہید کی شہادت کے بعد ، سید علی گیلانی صاحب نے اقوام متحدہ کو بھی خط لکھا جس میں چھ واضح پوائنٹس دیے گئے کہ کیسے کشمیر کو پرامن رکھا جا سکتا ہے اور کیسے انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جا سکتا ہے-بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں تحریک چلانے کی وجہ سے ہندوستانی حکومت نے 1981 میں آپ کا پاسپورٹ ضبط کر لیا اور اس کے بعد صرف 2006 میں آپ کو حج کے لیے جانے کی اجازت دی گئی جو کہ آپ کی زندگی کا ہندوستان سے باہر جانے کا آخری واقعہ تھا-

12 مارچ 2014 کو جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ و بجلی کا بندش کا ایک واقع پیش آیا ۔جس میں یہ شور برپا ہوا کہ سید علی گیلانی صاحب وفات پا چکے ہیں اور حکومت وقت اس بات کو چھپانے کے لیے ایسے حالات بنا رہی ہے – پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سید علی گیلانی صاحب زندہ ہیں، بجلی اور انٹرنیٹ کا مسئلہ اس لیے آیا کہ وادی میں برف زیادہ پڑنے سے تاریں بہت سی جگہ سے ٹوٹ چکی ہیں – تب جا کر کشمیریوں نے سکھ کا سانس لیا اور شکرانے کے نفل تک ادا کے گے –
2019 پلوامہ حملوں کے بعد ، ہندوستانی حکومت اور میڈیا نے آزادی پسند رہنماؤں خصوصاََ سید علی گیلانی صاحب کو حملے کا ذمہ دار قرار دے کر ایک دفعہ پھر تفتیش شروع کر دی -سید علی گیلانی صاحب کے صاحبزادے نعیم کے مطابق ، یکم ستمبر 2021 کو رات ساڑھے دس بجے (10:30pm) سید علی گیلانی صاحب اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئے – وفات کی وجہ کئی دنوں سے مسلسل ہونے والا سخت بخار بتاتا گیا – نعیم علی گیلانی کے مطابق ان کے والد مرحوم کا جنازہ بھی ان سے چھین کر ہندوستانی فوجیوں نے خود دفنایا اور لوگوں کو نماز جنازہ میں آنے سے روکنے کے لیے پوری وادی میں انٹرنیٹ اور امدورفت کے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے ۔ حیدر پورہ میں کرفیو سا سماں تھا ، گویا سید علی گیلانی صاحب کی لاش سے بھی بزدل فوج اور حکومت ڈر رہی تھی -سید علی گیلانی صاحب اس دنیا سے آزادی کشمیر و الحاق پاکستان کا خواب لے کر چل دیے مگر اب ہم سب پر ، انفرادی و اجتماعی طور پر یہ لازم ہے اور گیلانی صاحب کے خون کا قرض ہے کہ اس تحریک کو نہ رکنے دیں نہ آہستہ ہونے دیں بلکہ اگر ضرورت پڑے تو اپنا آپ قربان کر کے بھی اس تحریک کو جلا بخشیں اور انشاء اللہ ، انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو گا اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کی تکمیل کو گیسید علی گیلانی صاحب کو اس نعرے ” ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے ” کی وجہ سے بطور بانی رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا -سید علی گیلانی صاحب کی نمازِ جنازہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی کشمیری موجود تھے وہاں غائبانہ طور پر ادا کی گئی ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے سامنے ، جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی –

سید علی گیلانی مرحوم کے پوتے ڈاکٹر سید مجاہد گیلانی ( صدر کشمیر یوتھ الائنس پاکستان) کا کہنا تھا کہ "سید علی گیلانی ایک بہترین باپ ، بہترین دادا اور بہترین انسان تھے – خود ہندوستانی حکومت و فوج کے مظالم برداشت کرتے رہے پر انہوں نے ہم سب کو اعلی تعلیم دلوائی پر ” ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے ” کے نعرے کو ہم سے حلف لے کر ہم پر لازم کر دیا کہ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ بھی آزادی کشمیر و تکمیل پاکستان کے لیے حاضر کریں – انشاء اللہ ، ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس نعرے کی محافظ رہینگی –
سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی ایک شخص نہیں ایک تحریک کا نام ہے اور شاید آج کشمیری قوم خصوصاََ جموں و کشمیر کے کشمیری یتیم ہو چکے ہیں –

Back to top button