آر ٹی آئی تحقیقاتی صحافت کی خواہش مند خواتین کےلئے کارآمد ہتھیار ہے، سعدیہ مظہر
معلومات تک رسائی کے قوانین صحافیوں کو اقتدار کے ایوانوں میں پڑی فائلوں میں درج معلومات تک رسائی فراہم کرتے ہیں، آر ٹی آئی چیمپین کا ایوارڈ حاصل کرنے والی خاتون صحافی کا خصوصی انٹرویو
دنیا بھر میں کرونا وائرس کے آنے کے بعد جس طرح زندگیاں اور کاروبار مفلوج ہوئے وہیں ذریعہ روزگار ڈیجیٹل دنیا کی جانب منتقل ہوئے اور میڈیا الیکٹرانک اور پرنٹ سے نئی جدت اختیار کر گیا۔ دنیا بھر کی طرح ایشیائی ممالک خصوصا بنگلہ دیش ، بھارت اور پاکستان ڈیجیٹل نیوز ویب سائیٹس پر انحصار کرنے لگے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) کے استعمال میں اضافے سے معاشرے میں غیر مستند خبروں اور معلومات کی شکایات بھی عام ہیں، اور ان شکایات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے، ایسے میں تحقیقاتی صحافت اور اس کے لئے مستند دستاویزات اور مستند معلومات کا حصول مزید اہمیت حاصل کر گیا ہے، پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 اے ہر شہری کو سرکاری اداروں سے معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے لیکن ان قوانین پر موثر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث قانون سازی کے باوجود عام شہریوں کی طرح صحافیوں کو بھی معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
پنجاب کے شہر ساہیوال سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی سعدیہ مظہر نے اپنی تحقیقاتی صحافت کے لئے معلومات تک رسائی کے قوانین کا مسلسل اور بہترین استعمال کرکے یہ ثابت کردیا کہ اگر ثابت قدمی اور سنجیدگی سے ان قوانین کو استعمال کیا جائے تو سرکاری اداروں سے مستند معلومات اور دستاویزات کا حصول ممکن ہے ۔
سعدیہ مظہر کو کولیشن آن رائٹ ٹو انفارمیشن نامی تنظیم کی جانب سے معلومات تک رسائی کے عالمی دن کے موقع پر تحقیقاتی صحافت کے لئے معلومات تک رسائی کے قوانین کے بہترین استعمال پر شعبہ صحافت میں ’’آر ٹی آئی چیمپئین‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
سعدیہ مظہر نےبتایا کہ تحقیقاتی صحافت کے لئے معلومات تک رسائی کے قوانین کی اہمیت اور اس کے استعمال کا طریقہ کار تحقیقاتی صحافت سے متعلق ہر تربیتی ورکشاپ کا حصہ رہی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں صحافیوں کی جانب سے ان قوانین کو استعمال کرنے کا رجحان بہت کم ہے، اس کی بہت سے وجوہات ہیں ۔ آج سے تقریبا ڈیڑھ سال پہلے میں نے معلومات تک رسائی کے قوانین کے باقاعدہ استعمال کا فیصلہ کیا، ابتدا میں معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت معلومات کا حصول مشکل تھا لیکن باقاعدگی سے استعمال کرنے کے بعد اس میں دلچسپی بڑھتی گئی اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی معلومات یا دستاویزات ہمارے دفتر آرہی ہوتی ہیں اور ہمیں یہ انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ پہلے کن دستاویزات کو رپورٹ کیا جائے۔
سعدیہ نے مزید بتایا کہ ان قوانین کی خوبصورتی یہ ہے کہ میں ساہیوال میں اپنے گھر بیٹھ پر اسلام آباد میں واقع وزیراعظم ہاوس ، صدر ہاوس، پشاور کے وزیراعلی سیکرٹریٹ سمیت پورے ملک کے کسی بھی سرکاری محکمے سے معلومات اور دستاویزات حاصل کرسکتی ہوں۔ شروع میں مجھے بھی یہ سب کہانیاں لگتی تھیں لیکن ان قوانین کے استعمال کے بعد اندازہ ہوا کہ واقعی یہ قوانین صحافیوں کو اقتدار کے ایوانوں میں پڑی فائلوں میں درج معلومات تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔
صحافیوں کی جانب سے معلومات کے حصول کے لئے طویل انتظار کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سعدیہ مظہر نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ ان قوانین کے تحت معلومات کے حصول میں وقت لگتا ہے اور بعض اوقات تو کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں ، جبکہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد سے صحافیوں کو فورا سے معلومات حاصل کرکے بریکنگ نیوز دینے کی عادت ہوگئی ہے ، اس لئے وہ ان قوانین کو استعمال کرنے سے کتراتے ہیں لیکن تحقیقاتی صحافت اور معمول کی رپورٹنگ میں یہی فرق ہوتا ہے کہ تحقیقاتی صحافت میں آپ مسلسل ایک ایشوا پر معلومات حاصل کرنے کے بعد ایک جامع رپورٹ شائع کرتے ہیں۔
سعدیہ کا کہنا ہے کہ یہ قوانین خواتین صحافیوں کےلئے مزید7 کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان قوانین کے تحت آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، سرکاری محکمے آپ کو تمام معلومات اور دستاویزات آپ کے دیئے گئے پتہ پر بھیجنے کے پابند ہیں، اس لئے خواتین صحافی کہیں سے بھی ان قوانین کو استعمال کرتے ہوئے ملک کے کسی بھی سرکاری ادارے سے سوال پوچھ سکتی ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون اس چابی کی طرح ہے جس کے درست استعمال سے معلومات کا خزانہ صحافی کے ہاتھ لگتا ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون کے استعمال کو آسان بنایا جائے۔ دنیا بھر میں ڈیٹا جرنلیزم اور تحقیقاتی صحافت کے لیے صحافیوں کو ٹرینگز بھی دی جاتی ہیں مگر کیونکہ پاکستان میں صحافی صرف بریکنگ کی دوڑ میں رہتا یے اس لیے بہت سی ایسی فیلو شپس سے بھی لاعلم رہتا ہے۔
انفارمیشن کمیشنز کی کارکردگی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سعدیہ مظہر کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ انفارمیشن کمیشنز میں شکایات کئی کئی ماہ تک زیرالتوا رہتی ہیں اس کی مختلف وجوہات ہیں، ایک تو یہ انفارمیشن کمیشن اپنے بہتر سے انتظامی معاملے میں حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں اور اگر دیگر سرکاری اداروں کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہیں تو جب کمیشن کے معاملات ان کے پاس جاتے ہیں تو وہ بھی اپنا سکور پورا کرتے ہیں، دوسری بڑی وجہ انفارمیشن کمیشنز کے پاس وسائل کا فقدان ہے، تقریبا تمام ہی انفارمیشن کمیشن افرادی قوت اور مالی وسائل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں ، ان محدود وسائل کے باوجود یہ کمیشنز شہریوں کو معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئے کوشاں ہیں۔