Blogخبریں

تحریک انصاف ضلع مردان کے صدر انجینئر عادل نواز کا انٹرویو

پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں تنظیم نو کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ماضی کے برعکس اس دفعہ پارٹی الیکشن کی بجائے سلیکشن کے طریقہ کار اپنا گیا ہے۔ ملک کے باقی اضلاع کی طرح ضلع مردان کی کابینہ بھی تشکیل دے دی گئی۔ پشاور ریجن کی جانب سے جاری کردہ نوٹفکیشن کے مطابق انجینئر عادل نواز کو ضلع مردان (رورل) کا صدر مقرر کیا گیا۔ بدلون نے اپنے قارئین کے لئے تحریک انصاف کے نومنتخب صدر سے خصوصی گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش نظر ہے۔

دی رپورٹرز: پارٹی میں اختلافات کی وجوہات کیا ہیں اور ضلعی صدر ہونے کی حیثیت سے مردان میں پارٹی کو منظم کرنے کےلئے آپ کی حکمت عملی کیا ہوگی ؟

عادل نواز: پہلے کارکن کم تھے، جب کارکن کم ہوتے ہیں تو پارٹی کو منظم کرنا آسان ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اس وقت پورے ملک میں ہر لحاظ سے سب سے بڑی جماعت ہے۔ دو صوبوں اور وفاق میں حکومت کے ساتھ سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے اسی طرح سب سے ذیادہ کارکن، اسٹریٹ پاور اور سوشل میڈیا پر بھی بڑی طاقت ہے۔ اتنی بڑی جماعت کو منظم اور فعال رکھنے میں تھوڑے بہت اختلافات فطری عمل ہے۔ ضلع مردان کی کابینہ بننے کے بعد اگلے ہی روز نومنتخب عہدیداران کا اجلاس منعقد ہوا اور ناراض کارکنوں کو منانے اور پارٹی کو منظم کرنے کے حوالے سے حکمت عملی طے کی گئی ہے۔ کارکنوں اور عہدیداران میں جوش و جذبہ پایا جارہا ہے بہت جلد تحریک انصاف دوبارہ پہلی جیسی منظم اور فعال جماعت ثابت ہوگی۔

دی رپورٹرز : پارٹی قیادت کے چناو کےلئے الیکشن کی بجائے سلیکشن کا راستہ کیوں اختیار کیا گیا ؟

عادل نواز: پاکستان تحریک انصاف نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارٹی عہدیداران کے چناو کےلئے الیکشن کا انعقاد کیا اور کارکنوں نے باقاعدہ ووٹ ڈال کر اپنی قیادت کا انتخاب کیا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ پارٹی انتخابات کے دوران بننے والی گروپ بندی آج تک ختم نہیں ہوسکی۔ اس دوران پیدا ہونے والے اختلافات اور گلے شکوے آج بھی قائم ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کو نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے اس مرتبہ قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن کرانے کی بجائے نظریاتی اور قربانیاں دینے والے کارکنان کو عہدے دیکر انہیں سامنے لایا جائے۔ موجودہ کابینہ میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سابق ڈسٹرک ناظم وقار خان کو سینئر نائب صدر مقرر کیا گیا ہے جو 1997 سے تحریک انصاف کے کارکن ہیں۔

پارٹی کو منظم کرنے کےلئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ کارکنوں کی تربیت کےلئے لیکچرز اور سیمنارز کا انعقاد کیا جائے۔ تاکہ عہدوں کی لالچ کے بغیر کارکنوں میں پارٹی کی کامیابی اور فروغ کےلئے کردار ادا کرسکیں۔ میں ذاتی طور پر کسی عہدے کا خواہش مند نہیں ہوں کیونکہ میں نے ساری زندگی تنظیموں میں ہی گزاری ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ جلد از جلد اختلافات کو ختم کرکےویلج کونسل کی سطح تک تنظیمیں بناوں اس کے بعد ممکن ہے میں ضلعی صدر نہ رہوں۔

دی رپورٹرز : ویلج کونسل اور تحصیلوں میں تنظیم سازی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

عادل نواز: تحصیل اور ویلج کونسل سطح پر پارٹی عہدوں کے خواہش مند کارکنوں سے آن لائن درخواستیں وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا بہت اچھا رسپانس آرہا ہے۔ 500 سے زائد کارکنوں نے تحصیل اور ویلج کونسل کی سطح پر پارٹی کی نمائندگی کی خواہش ظاہر کی ہے۔ درخواستوں کی وصولی کا عمل پورا ہونے کے بعد اس کے بعد ان کی چانچ پڑتال کی جائے گی اور ضلع کی سطح پر دس افراد پر مشتمل سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو جرگہ کا کام بھی کرےگی اور گروپ بندی و اختلافات کے خاتمے کےلئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس کے بعد حلقہ کی سطح پر دس اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو ویلج کونسل کی سطح پر درخواستیں جمع کرانے والے تمام کارکنوں سے ملے گی اور ان کی مشاورت اور اتفاق رائے سے ویلج کونسل کی کابینہ تشکیل دی جائے گی۔

دی رپورٹرز: الیکشن میں مخالف امیدوراں کی حمایت کرنے والوں کو عہدے دینے پر کارکناں نالاں ہیں۔ کیا یہ نظریاتی کارکنوں کی حق تلفی نہیں ہے؟

عادل نواز: ضلعی کابینہ کا چناو ریجنل کے ذمہ داران نے کیا ہے اور اس کا بہتر جواب وہی دے سکتے ہیں۔ تاہم جس عہدیدار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ضلعی کابینہ کے اجلاس میں اس حوالے سے ان کا موقف بھی لیا گیا تھا ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے امیدوار سے اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے آزاد امیدوار کی حمایت کی تھی تاہم اپنا ووٹ انہوں نے پی ٹی آئی کو ہی دیا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنی وضاحتی ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے۔

 

دی رپورٹرز : سوشل میڈیا کے دور میں پارٹی ڈسپلن پر عمل درآمد کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟

عادل نواز: پارٹی ڈسپلن کر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور اس حوالے سے پارٹی میں سزا و جزا کا عمل شروع کیا جائے گا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کسی ایک کارکن یا رہنما کے خلاف کاروائی کی جائے تو اس سے سو اور ایسے کارکنوں کو پیغام ملتا ہے کہ اگر میں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تو میرے خلاف بھی کاروائی ہوگی جس پر پارٹی میں ڈسپلن قائم رہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کوئی بھی پارٹی شخصیات کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ شخصیات پارٹیوں کی محتاج ہوا کرتی ہیں اس لئے پارٹی ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ جو کارکنان اچھا کام کریں گے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے گی۔

دی رپورٹرز : پارٹی کی ذیلی نتظمیں ضلعی کابینہ کی مشاورت کے بغیر قائم کی جارہی ہیں اس کے اثرات کیا ہونگے؟

عادل نواز: بنیادی طور پر یوتھ ونگ، آئی ایس ایف، خواتین ونگ و دیگر ذیلی تنظمیں مرکزی پارٹی سے ملکر پارٹی کی کامیابی کے لئے جدوجہد کرتی ہیں۔ ضلعی کابینہ کی مشاورت کے بغیر ذیلی تنظمیوں کا قیام یقینا مزید اختلافات کا سبب بنے گا، یہ مسلہ ریجن اور صوبے کے علم میں لائیں گے تاکہ اس کے تدارک کے لئے اقدامات کئے جاسکیں۔

دی رپورٹرز: کیا عاطف خان کو منانے کو کوشش کی جائے گی؟

عادل نواز: بالکل پارٹی کے لئے عاطف خان کی بہت خدمات ہیں۔ ابتدائی ایام میں پارٹی کو مضبوط کرنے میں انکا ااہم کردار رہا ہے اور ان کا حجرہ پارٹی سیکرٹریٹ کے طور پر کارکنوں نے استعمال کیا ہے۔ ضلعی سلیکشن کمیٹی اختلافات کے خاتمے کےلئے ہر کارکن کے پاس جائے گی۔ اگر عاطف خان کو ہم سے کوئی گلہ ہوا تو میں خود بھی ان کے پاس جانے کو تیار ہوں۔ اسی طرح میری ان کے قریبی ساتھیوں سے رابطہ ہے اگر وہ تنظیم سازی میں اپنے ساتھیوں نے نام تجویز کرنا چاہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا باعث ہوگا۔

دی رپورٹرز: پارٹی کارکنوں کو کیا پیغآم دیں گے؟

عادل نواز: ہر سیاسی کارکن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی پارٹی کا سربراہ وزیراعظم بنے لیکن بہت کم سیاسی کارکنوں کی یہ خواہش پوری ہوتی ہے۔ کارکنوں کی محنت سے آج انکا قائد عمران خان وزیراعظم ہے۔ کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ حکومت کے خلاف جاری بے بنیاد پروپگینڈ کا دفاع کریں اور اپنے قائد پر اعتماد رکھیں۔ وہ اس قوم کو 70 سالہ مسائل سے نجات دلایں گے۔ قوم و کارکنان سے کئے گئے تمام وعدے پورے ہونگے۔

مکمل تعارف اور سیاسی سفر:

ایم ایس الیکٹریکل انجیئرنگ (پاور اینڈ کنٹرول) میں ایم ایس کی ڈگری کے حامل انجینئر عادل نواز کا تعلق ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی کے علاقے لوند خوڑ سے ہے۔ آپ 2007 میں 2007 میں تحریک انصاف کے ممبر بنے۔زمانہ طالب علمی میں آئی ایس ایف کے پشاور میں کے سرکرہ رہنما رہے۔  مردان ائے تو اس وقت تحریک انصاف میں گنتی کے چند افراد تھے جن کے ساتھ ملکر کر آپ نے آبائی ضلع میں پارٹی کو مضبوط بنانے کےلئے سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

ء2009 میں آئی ایس ایف کی بنیاد رکھی اور مردان میں آئی ایس ایف بانی صدر منتخب ہوئے۔ سرکاری کالجوں سمیت پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھی آئی ایس ایف کی تنظیمیں بنائیں۔ اس کے بعد انصاف یوتھ ونگ مردان میں صدرارت کے فرائض سرانجام دیئے۔ ضلعی کابینہ میں نائب صدارت کےلئے عہدے کے لئے الیکشن لڑا اور خیبرپختونخوا میں انٹراپارٹی الیکشن میں سب سے ذیادہ  527 ووٹ لے کر نائب صدر منتخب ہوئے۔ سیاسی جدوجہد اور پارٹی خدمات کے اعتراف میں 2013 الیکشن میں پارٹی نے ٹکٹ دیکر صوبائی اسمبلی کےلئے امیدوار نامزد کیا دوسرے نمبر پر آئے۔

تنظمیں تحلیل ہوئیں تو مردان کا آرگنائزر مقرر کیا گیا لیکن آپ نے عزت و احترام کے رشتہ کو اہمیت دیتے ہوئے خود سابق سنیئر وزیر عاطف خان کو اپنا عہدہ پیش کیا اور ان سے درخواست کی کہ چونکہ آپ بڑے ہیں تو آپ آرگنائز بن جائیں کام میں کرتا رہوں گا۔

سابق ضلعی صدر افتخار مشوانی کی کابینہ میں اانفارمیشن سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس کے بعد دوبارہ یوتھ ونگ کی سربراہی سونپی گئی۔ ان کا پروفائل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انہوں نے پارٹی کو کامیاب بنانے کے لئے چھوٹے بڑے عہدے کی تفریق کے بغیر اپنی خدمات پیش کیں۔

Back to top button