Blog

دُنیا وباﺅں کی ذد میں اور ہومیوپیتھی

چین سے پھیلنے والے کووڈ 19 نامی وائرس کو عالمی وباءقرار دیا جاچکا ہے ۔جو چین کے شہر ووہان سے پھیلا اور اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی بیماری نہیں ہے جو چین سے وباءکی شکل میں اُٹھ کر پوری دنیا کو متاثر کررہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی دنیا بہت سے وبائی امراض کی ذد میں رہا ہے ۔عالمی ادارہ صحت جنگ عظیم دوئم کے بعد وجود میں آیا اس سے قبل بھی دنیا کئی بیماریوں ،جراثیم اور وائرسز کی ذد میں رہا ہے جنہیں عالمی وباءقرار دیا جا چکا ہے۔اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے قیام کے بعد بھی اب تک دنیا میں مختلف وبائیں پھیل چکی ہیں ۔جن میں ہیضے کی وباء ، اسپینش فلو،چیچک،خسرہ،جذام،پولیو،ایشیا فلو،ہانگ کانگ فلو،ایچ آئی وی،ٹی بی،ملیریا،سوائن فلو وغیرہ شامل ہیں اور آنے والے دور میں بھی ہمیں مختلف وباﺅں کا سامنا ہے ،عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وبائیں اب ختم ہوچکی ہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے آج بھی یہ وبائیں موجود ہیں ، ہیضے کی وباء19ویں صدی کے آغاز سے پہلے دنیا میں سامنے آئی تھی جس سے تقریباً 13لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 1لاکھ 30ہزاراموات ہوئیں ۔ اسپینش فلووباءکی بات کی جائے جو آج سے تقریبا 102سال پہلے کی بات ہے جو کہ ہیضے سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا ، جنگ عظیم اول کے دوران سامنے آئی (1918-1920)جس سے 5کروڑ افراد متاثر ہوئے اور تقریبا 50لاکھ اموات ہوئیں ، جو کہ دنیا کے خطرناک ترین وباﺅں میں ہے ۔چیچک کو دیکھیں تو 2017میں 14,246کیس رپورٹ ہوچکے جبکہ 21اموات ہوئیں، 2018میں یہ شرح کافی کم ہوچکی ہے اسی طرح ملیریا سے آج بھی 2018رپورٹ کے مطابق 374,513 افراد متاثر ہوچکے تھے جبکہ سالانہ 10لاکھ اموات ہوتی ہیں اسی طرح ٹی بی ،ایچ آئی وی،پولیو،خسرہ وغیرہ یہ آج بھی موجود ہیں اور جو وبائیں ختم ہوچکی ہیں وہ بھی نئی پیچیدگیوں کے ساتھ ظاہر ہورہی ہے جس طرح طاعون کی بات کی جائے تویہ خطرناک وباء (1342 – 1353 ) کے دوران پھیلی تھی لیکن یہ دوبارہ 1665کو لندن میں پھیلی جس سے تقریبا 1لاکھ اموات ہوئیں سائنسدانوں کو جب انسانی جسم کے ڈھانچے ملے تو انہوں نے اس پر ریسرچ کی، کہ کن وجوہات کی بنا پرطاعون کی وباءدوبارہ پھیلی تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کے ڈی این اے اس کا ذمہ دار ہے اور بالکل یہی بات ہے ،اگر ہم دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو کہ کیوں آج تک ہمیں ٹی بی یا اوپر بیان کردہ بیماریوں سے یا نت نئی بیماریوں سے نجات نہیںمل رہی ، تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زیادہ تر بیماریاں یا وبائی امراض ہمارے جین (Gene)کے اندر (Mutation)پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ موروثی ہوتی جارہی ہے اور کسی نا کسی طرح کا نقص پیدا کررہی ہے جس کے بہت اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں لیکن دور ِ جدید میں ہمارے سامنے (Genetic Disorders)موروثی بیماریوں کا سامنا ہے جو کہ بے حد بڑھ رہیہیں اور اسکی بہت ساری وجوہات ہیں اور یہی وہ وجہ ہے کہ آج بھی ہم مختلف طبی مسئلوں کے شکار ہیں آج بھی ٹی بی جیسی بیماری سے ہمیں نجات نہیں مل رہی کیوں کہ وہ وراثتی طور پر منتقل بھی ہورہی ہے اور وراثتی منتقلی کے بعد وہ نئی بیماریاں بھی جنم دیتا ہے اس کے علاوہ بھی آج کل کے دور میں بہت ساری وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہمارے یہاں (Gene Mutation)کا ایشو بڑھتا جارہا ہے جس کی خاص وجہ بیماریوں کا غلط علاج بھی ہے اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو یہاں پر انٹی بائیوٹیکس کا غلط اور بے دریغ استعمال بہت ہی زیادہ ہے جس سے نا صرف انٹی بائیوٹیکس ریزسٹنس کا سامنا ہے بلکہ (Gene Mutation)کی بھی ایک خاص وجہ ہے بلکہ دنیا ایک نئی گروپ اف انٹی بائیوٹیکس کی تلاش میں ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ دنیا آج بھی نا صرف پرانی وباﺅں کی ذد میں ہے بلکہ دور قریب میں نئی وباﺅں کا بھی سامنا ہے ۔تو ایسے میں ہمارا پلان کیا ہونا چاہئے ؟

جہاںپر جدید میڈیکل سائنس بھی ناکام نظر آرہی ہے نا پرانی وباﺅں سے آج تک دنیا کو نجات ملی نا موجودہ وباءکی تباہ کاریوں سے نجات اور نا آنے والے دور کیلئے کوئی حل ۔۔۔۔کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد ماہرین صحت کا خیال ہے کہ ہمیں قوت مدافعت کو بہتر رکھنا ہوگا تب ہی ہم وباءکا مقابلہ کرسکتے ہیں ، اور درحقیقت ایسا ہی ہے نا صرف کورونا میں بلکہ تمام وبائی اور دیگر امراض میں کیونکہ اگر ہماری قوت مدافعت بہتر ہوگی تو ہم مختلف قسم کی بیماریوں سے لڑسکتے ہیں ۔جس کیلئے دنیا کو متبادل طریقہ علاج کی طرف آنا ہوگا بلکہ یورپ اور دیگر ممالک میں لوگ اب روایتی طریقہ علاج یعنی ایلوپیتھک ادویات کا استعمال کم سے کم تر کررہے ہیں ، جس قوت مدافعت کی بات آج ماہرین صحت نے کورونا کی وجہ سے کیا ہے ،یہی بات آج سے 2صدی پہلے بانی ِ ہومیوپیتھی کرچکے ہیں جو کہ ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے اور بعد میں ہومیوپیتھی کی بنیاد رکھی وہ اس وقت سمجھ گئے تھے کہ روایتی طریقہ علاج سے ہم مختلف قسم کی بیماریوں کو محض دبا دیتے ہیں اور اس طرح وہ مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتی ہے بلکہ اگر ہم دیکھیں تو وراثتی بیماریوں کی شکل میں ہمارے پاس بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہے ۔ہومیو پیتھی کی فلاسفی ہی یہی ہے کہ انسان کی قوت مدافعت کو بہتر کیا جائے تاکہ وہ خود مختلف قسم کی بیماریوں سے نجات پاسکے اور کسی بھی طرح سے کسی بیماری کو جسم کے اندر نا دبا یا جائے جس کو(Suppression)کہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے نا صرف موجودہ بیماری خطرناک ہوگی بلکہ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوگی جس کی آج جدید میڈیکل سائنس تصدیق بھی کررہی ہے ۔ جدید میڈیکل سائنس ڈی این اے کو پرکھ رہی ہے اور مختلف (Gene Mutation)دیکھ رہی ہے کہ کونسی بیماری کس (Gene)کی وجہ سے بار بار آرہی ہے اور وہ تقریباً کامیاب بھی ہوچکے اور وہ (Gene Therapy) کے بارے سوچ رہے ہیں لیکن یہ انسانی بقا ءکیلئے کوئی حل نہیں ، اوریہی سٹڈی بانی ِ ہومیوپیتھی نے آج سے تقریباً 2صدی پہلے ہی سٹڈی آف میازم کے نام سے پیش کرچکے ہیں (Complication of bacteria,virus,fungi etc)کہ کون سی وجوہات ہے ،کونسی جراثیم یا وائرسس کی کمپلیکیشن ہیں جو ہمارے جینوم یعنی موروثی انفارمیشن کے اندر دخل اندازی کرکے نت نئی بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے جسے جدید میڈیکل ریسرچ (Bacterial Genomics,Virus,Fungi etc)کہتے ہیں
اگردنیا نے وباﺅں کی ذد سے نکلنا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اب متباد ل طریقہ علاج کی طرف لوٹیں جو کہ بنیادی حل ہے کہ ہم کس طرح سے اپنی قوت مدافعت کو بہتر کرسکتے ہیں جس سے نا صرف ہم موجودہ دور کی بیماریوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں بلکہ آنے والے دور کی خطرناک صورتحال سے بھی کسی حد تک نکل سکتے ہیں اور ایک بہترین حل کی طرف جاسکتے ہیں۔ہومیوپیتھی کاوباﺅں کے حوالے سے ایک زبردست ریکارڈ موجود ہیں جتنے بھی وبائیں امراض آئی ہیں ان میں ہومیوپیتھک ادویات روایتی ادویات سے بڑھ کر مفید ثابت ہوچکی ہیں ۔جن میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں ۔۔
ہیضہ کی وبا ء30نومبر 1831میں ایک رپورٹ کے مطابق ایلوپیتھک ادویات سے 331مریضوں میں 229ٹھیک جبکہ 102اموات ہوئیں ۔۔۔جبکہ ہومیوپیتھک ادویات سے 349مریضوں میں 311ٹھیک جبکہ صرف 38اموات ہوئیں جو کہ ہر لحاظ سے بہت بڑی اچیومنٹ تھی۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پورے یورپ میں ایلوپیتھک ادویات سے شرح اموات 59.2%جبکہ ہومیوپیتھک ادویات کے استعمال سے شرح اموات صرف 9%رہی جو کہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ہیضہ کی وبا ء1892 میں پھر سے ہومیوپیتھک ادویات کے استعمال سے زیادہ مریض شفایاب ہوئے اور شرح اموات 15.5%رہی جبکہ ایلوپیتھک ادویات سے یہ شرح 42% رہی۔اسی طرح Yellow Fever وباءکی بات کی جائے تو ہومیوپیتھک ادویات کے استعمال سے شرح اموات 16.4%رہی جبکہ ایلوپیتھک ادویات سے یہ شرح 83.6ریکارڈ کی گئی ہے .اسی طرح فلو کی بات کی جائے تو 1918میں 24000/26000مریضوں کو ہومیوپیتھک ادویات استعمال کرنے سے شرح اموات 1%رہی جبکہ ایلوپیتھک ادویات سے شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ریکارڈ سے معلوم ہورہا ہے کہ ہر دور میں ہر وباءمیں ہومیوپیتھک ادویات مفید رہی جس کی واحد وجہ ہی یہی ہے کہ یہ قوت مدافعت کو بہتر کرتی ہے جس سے نا صرف شرح اموات نا ہونے کے برابر رہے بلکہ کسی بھی طرح کی پیچیدگیاں سامنے نہیں آئی ۔دور جدید میں بھی ہمیں کورونا جیسی وباءکا سامنا ہے جس میں چین جیسا ملک جہاں سے وباءپھیلی اور جس نے سب سے پہلے قابو کیا ان کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہم نے Traditional Medicineیعنی کہ نیچرل ادویات /ہربل ادویات سے اس وباءسے جان چھڑانے میں مدد لی وہی پر ہندوستان جیسا ملک جو کہ میڈیکل ٹیکنالوجی میں واقعی بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے وہاں کی گورنمنٹ نے ہومیوپیتھک ادویات کو کورونا کے خلاف استعمال کرنا شروع کرچکا ہے بلکہ وہاں تو حفظ ِ ماتقدم کے طور پر بھی استعمال کروائی جارہی ہیں۔اور وہ وقت دور نہیں جب وہ اس میں کامیاب بھی ہونگے ۔ہمیں بھی اس طرف دھیان دینا ہوگا اب جبکہ اس صورتحال میں ایلوپیتھک ادویات ناکام ثابت ہورہی ہے اور کوئی ویکسین نہیں ہے تو ماہرین صحت کو متبادل طریقہ علاج کی طرف جانا پڑھے گا۔ورنہ اس وباءکے مابعد اثرات دنیا کیلئے ایک بہت بڑی چیلنج ثابت ہوگی۔

Back to top button