خواتین صحافیوں کے لئے سوات میں جگہ کیوں نہیں؟
لڑکیاں یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ڈگریاں تو حاصل کر لیتی ہے مگر پھر عملی میدان میں جانے سےکتراتی ہیں یا پھرادارے کام کرنے کے مواقع نہیں فراہم کرتے، یہ کہنا ہے سوات سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی شفیقہ گل کی جو اب ایمرجنسی ریسکیو سروسز ریسکیو 1122 سوات میں ترجمان کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے اور ساتھ ہی عورتوں کے مسائل پر بلاگز و تحاریر بھی لکھتی رہتی ہے۔
شفیقہ گل نے سال 2009 میں شدت پسندی کے دوران شعبہ صحافت میں قدم رکھا تھا، ان کا کہنا ہے کہ شعبہ صحافت میں خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، 2009میں ایک طرف شدت پسندی کا دور تھا جب صحافیوں کو خطرات لاحق تھے تو دوسری جانب گھر والوں کی جانب سے پابندیوں کا سامنا تھا، ایسے میں فرضی نام سے صحافت کرنے کا فیصلہ کیا۔
شفیقہ گل کہتی ہیں کہ پختون معاشرے میں خواتین بمشکل یونیورسٹیوں میں آکر جرنلزم میں تو داخلہ لے لیتی ہے مگر پھر اس سوسائٹی کی منفی سوچ کیوجہ سے آگے فیلڈ میں کام جاری نہیں رکھ پاتی، جب میں خود فیلڈ میں کام کرتی تھی تو معاشرے کے لوگ بہت بری نظر سے دیکھتے تھے اور جب میں کسی جگہ پر رپورٹنگ کے لئے جاتی تھی تو لوگ کہتے تھے کہ آپ باہر کیا کررہی ہو اس طرح اپنے صحافی برادری میں بھی مجھے فیلڈ میں جگہ نہیں دی جاتی تھی ، حسد کیا کرتے تھے اور کسی بھی معاملے میں مدد نہیں کرتے بلکہ الٹامسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
گل نے مزید کہا کہ جب میں نے پہلی دفعہ ریڈیو میں کام شروع کیا اور گاوں والوں نے میری آواز سنی تو لوگ کہتے تھے کہ دیکھولڑکی کی آواز ہے اور رشتہ دار بھی کہتے تھے کہ تیری اواز تو ریڈیو پر آتی ہے یہ تو بہت برا ہے گل کہتی ہے کہ میں نے لوگوں کی بری باتوں کو نظر انداز کیا کیونکہ بعض لوگوں کی اچھی باتوں پر حوصلہ مل جاتا تھا۔
ریجنل انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع سوات میں صحافیوں کے مختلف پریس کلب موجود ہے جن میں ضلع کےسطح پر سوات پریس کلب موجود ہے جس میں تقریبا 60ممبران موجود ہے جبکہ اس کے علاوہ تقریباً ہر تحصیل کے لیول پر بھی تحصیل پریس کلبز موجود ہے جن میں کبل پریس کلب میں 12ممبران، بریکوٹ پریس کلب میں 9ممبران،اسی طرح مٹہ،خوازہ خیلہ اورمدین پریس کلب 24 ممبران موجود ہے مگر ان تمام پریس کلبز میں ایک بھی خاتون صحافی ممبر نہیں ہے جس پر سوات میں خواتین صحافیوں کو تشویش ہے اور ان کا یہ گلہ رہتا ہے کہ سوات میں مرد صحافی ہمیں کیوں اپنی برادری کا حصہ نہیں مان رہے۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ایک اور خاتون صحافی نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ایک بات واضح ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاتون صحافی کو کوئی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ایک تو خود ہمارا معاشرہ ہمیں جگہ دینے کو تیار نہیں ہے اور دوسرے جانب حکومتی ادارے اور صحافتی تنظیمیں بھی خاتون صحافیوں کو کوئی جگہ نہیں دے رہے. انہوں نے کہا کہ ابھی تک صحافت سے وابسطہ تنظیمیں اور پریس کلب نے سوات میں خاتون صحافیوں کو نہ تو کوئی ممبر شپ دی ہے بلکہ مرد صحافی فیلڈ میں اور کام میں بھی خاتون صحافیوں کو برداشت تک نہیں کرسکتے کبھی خاتون صحافی کی عزت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں توکبھی ان کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور ان کے خلاف سازشیں تک کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم جب کسی دفترمیں ہوتے ہیں یا باہر فیلڈ میں رپورٹنگ کے لیے جاتے ہیں تو فیلڈ میں بھی جنسی حراسانی کا سامنا ہوا ہے اور حتی کہ بعض افراد کی جانب سے میرے ساتھ جنسی حراسانی کی کافی کوششیں بھی کی گئی ہے کبھی کبھار تو انٹرویو یا مختلف سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں بھی کوریج کے لئے جاتے ہیں تو بھی مردوں کی گندی نظروں کا شکار ہو جاتے ہے۔
شائستہ حکیم بھی سوات سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی ہے ان کا کہنا ہے کہ میں گزشتہ گیارہ سالوں سے صحافت کےشعبے سے وابستہ ہوں اور اب تک پرنٹ،الیکٹرانک میڈیا کے مختلف رپورٹس کئے ہیں، یونیورسٹی میں زیادہ تر مرد تھے اور لڑکیوں کی تعداد انتہائی کم تھی۔ ہمارے معاشرے کے لوگ اپنی بیٹیوں کومیڈیا کی طرف جانے نہیں دیتے لوگ کہتے ہیں کہ صحافت کا شعبہ مردوں کیلئے ہے یہ شعبہ لڑکیوں کے لئے نہیں۔
شائستہ کہتی ہے کہ میرے ساتھ کلاس میں تین اور لڑکییاں کلاس فیلو تھیں مگر وہ عملی فیلڈ میں نہیں آئی، اس کی بنیادی وجہ گھر والوں کی طرف سے پابندیا ں تھی ہم جس معاشرے میں رہتے وہ نہیں چاہتے کہ لڑکیاں میڈیا میں اجائے اور ہمارےلوگوں کی ذہنیت بن چکی ہے مگراس ذہنیت کو تبدیل کرنے میں وقت لگیں گا۔
میڈیا میں مزید خواتین صحافیوں کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرے میں زیادہ تر مسئلے خواتین کے ساتھ ہے،شائستہ پرعزم ہے وہ کہتی ہے کہ مستقبل میں خواتین صحافی فیلڈ میں ضرور آجائیں گے۔
خالدہ ظفر کا تعلق سوات کے علاقہ گالوچ سے ہے اور انہوں نے ابھی ابھی اپنا ماسٹرز جرنلزم میں مکمل کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ گھر کی طرف سے مجھے مسئلہ نہیں ہے مگر پھر بھی معاشرے کے لوگ بری نظر سے دیکھتے ہیں وہ کہتی ہے کہ میں لکھنے اورڈاکومنٹری بنانے میں دلچسپی رکھتی ہوں انہوں نے مزید بتایا کہ میں خواتین کے مسائل پر کام کرچکی ہوں اور ابھی تک بہت سارےمضامین جو خواتین کے مسائل بارے تھے وہ شائع ہوچکے ہیں۔
خالدہ مزید کہتی ہے کہ شعبہ صحافت میں داخلہ لینے کے لئے کچھ سٹیروٹائپس موجود ہے اور زیادہ تر لڑکیا ں باہر جانا پسندنہیں کرتیں کیونکہ وہ لڑکیا ں یہ کہتی ہے کہ کوئی ہم پر انگلی نہ اٹھائیں ہم پشتون معاشرے میں رہتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی ہیں تو اس وجہ سے لڑکیا ں باہر نہیں جاسکتی اور گھر بیٹھ جاتی ہیں۔
یونیورسٹی آف سوات کے شعبہ صحافت کے چیئرمین جمال الدین نے کہا کہ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ سوات یونیورسٹی میں اب تک جتنے بھی بیچز آئے ہیں تو ابھی تک 2سے4فیصد طالبات نے داخلے لئے ہیں ۔جمال کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر گھر والوں کی پابندیوںاور ہمارے معاشرے کے کلچر کے وجوہات کی وجہ سے زیادہ لڑکیا ں داخلہ نہیں لیتی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کا کلچر ایک رکاوٹ ہےکہ والدین اپنے بچیوں کو شعبہ صحافت میں داخلہ دلا سکے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر صحافت کی طالبات ڈگریاں تو حاصل کرلیتی ہے مگر وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد فیلڈ میں کام نہیں کرسکتی۔
جمال نے مزید کہا کہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کلچر کے پریشر سے طالبات کو عملی کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے،انہوں نے کہا کہ ایسے بھی مثالیں موجود ہے کہ خواتین صحافی بھی موجود ہے کہ انہیں پورا سپورٹ حاصل ہوتا ہے۔خواتین صحافی عملی صحافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے یہاں پر تھوڑا مسئلہ ہے مگر بڑے شہروں میں کوئی مسئلہ نہیں اور خواتین صحافی عملی میدان میں موجود رہتی ہیں۔انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ صحافت میں بہت سارے ایسے ایشوز موجود ہوتے ہیں کہ وہ مردصحافی کور نہیں کرسکتے ہیں وہ خواتین صحافی بہتر انداز میں کور کرسکتی ہے۔