بے روزگار نوجوان حکومتی اقدامات کے منتظر
کرونا وبا نے جہاں دنیا کے اقتصادی اعتبار سے مضبوط ترین ممالک کی معیشت کو کمزور کیا ہے وہاں پاکستان جیسے کمزور معیشت ملک کامعاشی نظام بھی ا پنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے ، افراط زر میں اضافہ ، برآمدات میں کمی بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ ، کرنٹ اکاونٹ خساہ سمیت بے روزگاری میں اضافہ جیسے شدید مشکلات کا سامنا ہے ،ان ہی مشکلات کے درمیان خبر آگئے کہ ملک کی مجموعی گھریلوپیدوار 68سال بعد پہلی بار منفی زون میں داخل ہو گیا اور حکومت دوسرے سال بھی اہم اقتصادی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔
لیکن حکمرانوں نے اسے عالمی منظر نامہ میں رکھ کردیکھنا شروع کیا اور پیٹھ تھپتھپانے لگے کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے ۔ ابھی نا اہلی کا یہ رقص جنوں جاری ہی تھاکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کرونا سے بے روزگاری پر اپنی روپورٹ جاری کیا جس میں 3اور 6ماہ کا جائزہ لیا گیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیائی خطے کی 13ممالک جو کرونا وبا ء سے شدید متاثر ہوئے ہیں ان متاثر ممالک میں پاکستان نواں متاثرہ ملک ہے جن کے نوجوانوں میں بے روزگاری کا معاملہ اُجاگر کر کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی نا اہلی پر چڑھائی جارہی قلعی اتاردی ہے
رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے پاکستان 3ماہ کے دوران 15لاکھ 6ہزار نوجوان جو مستقل تنخواہوں پر رئیل اسٹیٹ، مینو فیکچرنگ ، ہول سیل، و ریٹیل ٹریڈ، رہائشی و فوڈ بزنس کے شعبوں و دیگر صنعتی ملازمین سے لے کر مختلف دفاتر میں کام کرنے والے سفید پوش ملازمین سبھی شامل ہیں جو اپنے روزگار وں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 6ماہ میں مزید 22لاکھ 58ہزار نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔
جو رپورٹ حکومت کو دینی چاہیے تھی وہ رپورٹ عوام کوایشیائی ترقیاتی بینک دے رہا ہے ۔ ایک کڑوڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت میں ہر ماہ لاکھوں لاکھ کی تعداد میں ملازمتوں کا ختم ہوجانا پالیسی کی صریح ناکامی ہی کہی جائے گی ۔
اگر ہم بے روزگاری کے اعدادوشمار پر نگاہ ڈالیں تو گزشتہ چند مہینوں میں ایسے تمام شعبوں سے ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں جنہیں اگر حکمت عملی کے ساتھ سنبھالا جاتا تو ملک میں بڑھتی بے روزگاری پر قابو پایاجاسکتاتھا ۔ ان شعبوں میں کاٹج، مائیکرو اور اسمال انڈسٹریز کی اکائیاں سرفہرست ہیں ۔ وبائی بحران کے درمیانی مہینوں میں حکومت نے ان شعبوں کو بچانے کیلئے کورونا ریلیف فنڈ اور احساس پروگرام کے انضمام کا فیصلہ تھا اور بے روزگار ہونے والوں کے لئے 12ہزار روپے امداد کا اعلان ایسے پیکیج کا اعلان جو ان شعبوں کے کسی کام نہیں آسکیں اور عملاً ان شعبوں پراس پیکیج کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا ۔
حکومت کے سالانہ منصوبے برائے 2019;46;20کے مطابق پاکستان دنیا کی نویں بڑی مزدور قوت ہے جوہرسال بڑھتی جا رہی ہے ملک کی معیشت پر نگاہ رکھنے والا ادارہ جو ملک میں روزگار ی نبض ٹٹولٹا ہے لیبر فورس سروے 2017-18کے مطابق اگلے سال 2020-21 کے لئے بے روزگاری کی شر ح 9;46;56فیصد بتائی گئی ہے ۔ پاکستان بے روزگار تعلیم یافتہ افراد خصوصاً بے روزگار گریجویٹس کا سامنا کر رہا ہے ڈگری حاصل کرنے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریباً 3گنا زیادہ ہے اس طرح بے روزگاری کی شرح مردو ں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ ہے ۔ اوسط بیروزگاری کی شرح نوجوانوں جو 20سے 24 سال ہے 11;46;56فیصد ہے
لیبر فورس سروے کے مطابق اگر ملکی معیشت کا گراف اسی طرح نیچے گرتا رہا تو تنخواہ والی ملازمتوں پر اس کا اور خطرناک اثر پڑے گا ۔ ملک میں کل وضع روزگاروں میں بیشتر حصہ تنخواہ والی ملازمتوں کا ہوتا ہے ۔ اکثر دیکھاگیا ہے کہ تنخواہ والی ملازمتیں کچھ حد تک مستحکم سمجھی جاتی ہیں مگر یہ ملازمت ایک بار اگر چلی گئی تو فردکے لیے اسے دوبارہ حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوجاتا ہے ۔ اس صورتحال کوذہن میں رکھ کر ایشیائی ترقیاتی بینک کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے توجو منظر نامہ سامنے ابھرتا ہے وہ انتہائی حد تک خوفناک ہے ۔
بے روزگاری کے اس دیوہیکل طوفان کوجارحانہ قوم پرستی کی آڑ میں چھپایا نہیں جاسکتا ہے ۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ معاملہ کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے حکومت اس جانب بھرپور توجہ دے