ہفتہ قبل کئی فرمائشی کالم نظروں سے گزرے ۔ ہر کالم میں تحریر کیے الفاظ ایک دوسرے سے منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔ کالموں کی منڈی میں عجیب حادثہ ہے کہ آپ کو اپنی شناخت کے لیے الفاظ بیچنے کا کاروبار کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف الفاظ ایک ایسی زندہ حقیقت ہیں کہ ان کا چناؤ اس کو ضبط ِتحریر میں لانے والے کو ننگا کر دیتے ہیں ۔ ہمارے لیے حاکم کی جی حضوری سب سے آسان کام سہی لیکن دوسری طرف کھڑے ہو کر آواز دینے کا بھی ایک اپنا مرتبہ ہے۔آج کے دور میں پاکستان میں حکمرانی کے تیور بدل چکے ہیں۔
یہاں محبوب قائد کو تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کی مانند پرائس کنٹرول کا کام سونپ دیا گیا ہے جو آپٹکس کی حد میں بھی ایک نا مناسب ترویج ہے۔ کام کرنے کے جو ہیں ناجانے کون کرے گا؟ پاکستان کی تاریخ میں پہلی باربار اس قدر منقسم ہے کہ اپنے ہی رفیق کے ہاتھوں میں یہ لگی ہتھ کڑیاں انہیں عدالتی نظام کی آزادی تصور ہوتی ہے۔ وہ بار جس نے عدلیہ کی آزادی کا بیڑہ اٹھایا وہ اب بادی النظر میں مشترکہ مقاصد کی روش سے بھٹک چکا ہے۔ آئے روز عدالتوں میں انصاف کا قتل ہو رہا ہے تو باہر ڈوروں سے گردنیں کٹ رہی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی اس زمین کی ثقافت ہے۔ ثقافت سے یاد آیا کہ لیجنڈ شوکت علی کے بیٹے کی تنخواہ کٹوتی کی خبر مختلف ٹی وی چینلز پر چلی۔ نا چلا تو مقتدر حلقوں کا قلم۔ نوکر شاہی کو اختیارات سے تجاوز کرنے پر اٹھنے والے مروڑوں کی پھکی دینے والی زیرک اور دلیر وزیر عظمیٰ بخاری بھی شاید تعریفیہ کالموں اور خوشامدیوں کے ہاتھوں یرغمال بنائی جا چکی ہیں وگرنہ علی نواز ملک کے ہاتھوں ثقافتی اداروں میں کھیلے جانے والی کھیل کے ٹھیکے نوکر شاہی کو تگنی کا ناچ نچا دیتے مگر پچھلے دور میں نوکر شاہی کا جِن بوتل سے باہر آ کر معاشرتی ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے جس نے فن اور فن سے وابستہ لوگوں کو بھی نہیں چھوڑا۔
مریم نواز کا بیساکھی منانے کا اعلان ایک طرف مگر جب ثقافت کی ترویج کے نام پر جہالت ، تعصب، عصبیت، طبقاتی تقسیم اور نفرت کے بیج بوئے جائیں گے تو اگلی بیساکھی کا رنگ یقیناً انسانی خون جیسا ہی ہو گا۔ مریم نواز کو یقینی طور پر انتظامی سطح پر انہی ناسوروں سے کام لینا اور نکلوانا ہے مگر مریم نواز کو یہ سمجھنا ہو گا کہ صوبائی کیڈر کے انتظامی افسر یقینی طور پر وفاقی انتظامی کیڈر کے خون خوار بھیڑیوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ ایک طرف تو سٹی اور لاہور فیم ٹی وی چینلز لیجنڈ شوکت علی کے بیٹے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا واویلا کرتے ہیں تو دوسری طرف نوکر شاہی کے دربار میں ان کے چینلز حاضری بھی لگاتے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لہو سے رنگے ہاتھوں کی نفسیات جانتے ہوئے بھی انہیں کلین چِٹ دے دی جائے۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ آپ کے ہی شعبے سے وابستہ فرد کا چچا جو کسی دور میں بطور پارلیمانی سیکرٹری آپ کے سٹاف کا حصہ رہا ہے۔ آپ کے ہوتے ہوئے بھی بلال حیدر اور علی نواز ملک کی باقیات کے اختیارات سے تجاوز کے جال سے نکل نہیں پایا۔
کہاں گئی آپ کی پھکی یا یہ پھکی آج کل یہ ثقافتی چور آپ کے دفتر سے چرا کر آپ ہی کو دے رہے ہیں؟ الحمرا لاہور آرٹس کونسل میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی ہو یا پھر پنجاب آرٹس کونسل میں نفسیاتی ہیجان کا شکار بلال حیدر یہ سب کے سب آپ کی اہلیت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ علی عمران شوکت ہو یا فنکار برادری ، وہ روشنی کے نمائندہ لوگ ہیں جو ہمارے تہذیبی وثقافتی سفر کا حاصلِ کل ہیں۔ خدارار جھوٹی متعصب نوکر شاہی، سرکاری حکومتی ادیبوں ، کالم کاروں اور فن کاروں سے باہر بھی ایک دنیا آباد ہے۔ کہنے کو تو میں بھی ان ثقافتی چوروں کی توصیف میں آسمان کے قلابے ملا سکتا ہوں مگر الفاظ اور آواز کی عدالت میں میں خود کو سچا کیسے ثابت کر پاؤں گا؟
قانون کے ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے پنجاب کے تھیٹر کے بعد انفرادی طور پر ہونے والی زیادتیوں پر آنکھیں موند لینا شاید میرے بس کی بات نہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ عظمیٰ بخاری آنے والے ہفتے میں علی نواز ملک کی باقیات اورنفسیاتی ہیجان کے شکار بلال حیدر کے اختیارات سے تجاوز کرنے پر ان ثقافتی چوروں کو اپنی وہ پھکی دینے میں کامیاب ہو جائیں گی جس سے ان کا قد کاٹھ حکومتی ادیبوں کی تحریروں سے نکل کر عوامی تاریخ کا حصہ بن جائے گا وگرنہ آئے روز احد چیمہ ، پرویز رشید اور ان جیسے کئی سیاسی شرفا کی توصیف میں نکلنے والے حکومتی ادیبوں کا طلسم ثقافتی طور پر جاگتی سیاسی حکومت کو ذہنی طور پر معذور کر دے گی اور اس کے علاج کی پھکی شاید پھر ان حکومتی ادیبوں کے بستوں سے بھی برآمد نہ ہو۔
ہمارے ہاں فنکار اور اس کی اولاد کی بے توقیری مزاج بن چکا ہے۔ آگے بڑھیں اور ثقافتی پھکی کا پہلا تجربہ ثقافتی اداروں پر کریں وگرنہ ان ثقافتی چوروں کے دروازوں پر فن اور فنکار خود کشی کرتے رہیں گے اور چوروں کے پاس جواز جو رہ جائے گا وہ صرف اتنا ہو گا کہ عظمیٰ بخاری کون سا وزیر ثقافت ہے؟ کیا عظمی بخاری اور مریم نواز اس ثقافت کی بیٹیاں نہیں؟ جواب تین سے چار دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ بے حسی اور ثقافتی چور وں کا گٹھ جوڑ جیتے گا یا پھر ثقافتی پھکی اورعوام۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔