خواجہ سراؤں سے نفرت کیوں؟
بنیادی حقوق سے محروم خواجہ سراؤں کو معاشرے میں جہاں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہیں انہیں ان کے فن کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ 2019 میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس میں خواجہ سراؤں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، روزگار کے مواقع نا ملنے سے پریشان تو دوسری جانب اِن کے واحد زریعہ معاش( ڈانس) میں بھی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہے جس سے خواجہ سراؤں کی زندگیاں مشکلات کا شکار رہتی ہیں ۔
خواجہ سرا اور معاشرتی تنگ نظری
وادئی سوات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواجہ سرا برادری ایک سو تیس افراد پر مشتمل ہے جب کہ خواجہ سرا برادری کی جانب سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق ضلع بھر میں اِن کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماضی میں خواجہ سراء شادی، بیاہ، سالگرہ و یگر مواقعوں پر ڈانس ان کا بہترین ذریعہ معاش تھا تاہم خیبرپختونخوا میں بالعموم اور سوات میں بالخصوص طالبان آنے کے بعد سے لوگوں نے انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چھوڑ دیا۔ سوات سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا کرن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب سوات میں امن بحال ہوچکا ہے اور طالبان سمیت دیگر شر پسند عناصر کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود شادی، بیاہ و دیگر تقریبات کی رونقیں پہلے جیسی بحال نہیں ہوسکیں ہیں۔ جس سے خواجہ سراؤں سے انکا واحد ذریعہ معاش بھی چھین چکا ہے’’ ہمیں ایک جانب فکر معاش لاحق ہے تو دوسری جانب معاشرے کی تنگ نظری نے ہماری زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اور رہی سہی کسر سرکاری اداروں بالخصوص محکمہ پولیس نے امتیازی سلوک روا رکھ کر پوری کردی ہے جس کے خلاف عموما ہماری برادری سراپا احتجاج رہتی ہیں۔‘‘
خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات اور پولیس کا کردار
وادئی سوات کے خواجہ سرا ؤں پر تشدد کے اب تک پچاس سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔محکمہ پولیس کی جانب سے ملنے والے اعداد وشمار کے مطابق 2019ء میں صرف بیس سے زائد واقعات میں خواجہ سراؤں کو مجموعی یا انفرادی طورپر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اِن تمام واقعات کے پولیس اسٹیشنوں میں مقدمے بھی درج ہوئے لیکن خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ پولیس کی اشیرباد سے ملزمان رہا ہوتے ہیں، یا ملزمان اور خواجہ سراؤں میں راضی نامہ کروایا جاتا ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا چاہت نے گفتگو میں کہا کہ ایک تو معاشرہ انہیں تسلیم نہیں کرتا۔انہیں شادیوں اور دیگر تقاریب میں بلا یا جاتا ہے، وہاں پر بھی انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اکثر اوقات تو لوگ ان کے گھروں پر بھی حملہ آور ہوجاتے ہیں اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے،ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔”جب ہم پولیس اسٹیشن فریاد لے کر جاتے ہیں، تو وہاں اُلٹا ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے۔ ہمیں شرمندہ کیا جاتا ہے۔ جب کسی واقعے کے ملزمان گرفتار ہوتے ہیں، تو انہیں اگلے ہی دن رہائی مل جاتی ہے۔‘‘
اس حوالے سے ڈی ایس پی سٹی دیدار غنی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں خواجہ سراؤں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ انہیں ہر قسم کی قانونی امداد ملتی رہتی ہے۔ دیدار غنی نے اس بات کی تردید کی کہ پولیس خواجہ سراؤں کے معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں، جتنے بھی کیس ان کے ساتھ رپورٹ ہوئے، اُن میں ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور انہیں سزائیں بھی دی گئیں۔ ”اکثر اوقات خواجہ سرا پولیس میں ایف آئی آر درج کراتے ہیں لیکن جب ہم قانونی کارروائی کا آغاز کرتے ہیں، تو خواجہ سرا برادری ہی ہمیں ایسا کرنے سے منع کرتی ہے۔ خواجہ سراؤں کا کہنا ہوتا ہے کہ صرف ملزمان کو پولیس اسٹیشن میں بلایا جائے، اور ہمارے ساتھ بٹھایا جائے نہ کہ کوئی قانونی کارروائی کی جائے۔“ دیدار غنی نے مزید کہا کہ اب ہم ایسا تو نہیں کرسکتے کہ پولیس اسٹیشن میں خواجہ سراؤں کے لئے لوگوں کو بلیک میل کریں اور اُن پر دباؤ ڈالیں ۔ ڈی ایس پی دیدار غنی کے مطابق خواجہ سراؤں پر تشدد کے اب تک پچاس سے زائد رپورٹ درج ہوئے ہیں جن کے مجرموں کو سزائیں بھی دی جا چکی ہیں۔
جب خواجہ سراآپے سے باہر ہوئے
وادئی سوات میں جنوری کے مہینے میں خواجہ سراؤں نے احتجاج کے دوران مینگورہ پولیس اسٹیشن پر پتھراؤں کیا تھا جس کے بعد پولیس نے کئی خواجہ سراؤں کو گرفتار کیا تھا۔خواجہ سراؤں کا کہنا تھا کہ ایک محفل میں با اثر افراد نے ہمارے دوست نعمت کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ہم نے پولیس اسٹیشن میں اُن کے خلاف رپورٹ درج کی، لیکن اگلے ہی روز مذکورہ افراد رہا ہوئے جس کے بعد ہم نے احتجاج کیا۔احتجاج کے دوران گرفتار کئے گئے خواجہ سراؤں پر پولیس کی جانب سے بد ترین تشدد کیا گیا۔خواجہ سراؤں کی تنظیم منزل فاؤنڈیشن کی صدر آرزو خان نے اس حوالے سے بتایا کہ خواجہ سراؤں نے انصاف نہ ملنے پر پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا تھا جس کے بعد پولیس نے انہیں گرفتار کر کے اُن پر بے تحاشہ ظلم کیا۔”خواجہ سراؤں کی آواز کوئی بھی سننے کو تیار نہیں۔اگر ہم مرجایں،ہمیں پیٹا جائے، اس کی کسی کو کوئی پر وا نہیں ہوتی۔ سوات پولیس بھی ہماری آواز پر کان نہیں دھرتی اور ہم پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ مل جاتی ہے۔“
مذکورہ واقعے کے حوالے سے سابقہ ڈی پی او سوات سید اشفاق انور کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کے ساتھ تلخ کلامی اور ان پر تشدد کرنے والوں کو چالان کیا گیا تھا، اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جا چکا تھا، لیکن اگلے ہی روز وہ ضمانت پر رہا ہوئے جس کے بعد خواجہ سراؤں نے احتجاج کیا اور پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ بھی کیا۔
"ہمیں چین سے جینے کیوں نہیں دیا جاتا۔۔!!”
وادئی سوات میں رہنے والے خواجہ سراؤں کو جہاں دیگر معاشرتی نا انصافیوں اور عدم مساوات کا سامنا ہے، وہاں اِن کے ساتھ جانوروں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔سوات سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا کرن نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچپن سے ہی انہیں حقارت کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ عدم مساوات کی شروعات گھر سے ہی ہوئی۔ پھر معاشرے میں بھی انہیں جانور ہی سمجھا گیا۔ ”ہمیں اور کوئی کام نہیں آتا، بس یہی ہمارا فن ہے کہ ہم شادیوں اور دیگر خوشی کی تقریبات میں رقص کریں اور اس کی بدولت اپنے لئے دو وقت کی روٹی کما ئیں۔آئے روز ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ہمارے گھروں میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے،ہمارے اوپر نازیبا جملے کسے جاتے ہیں۔“
کرن نے مزید کہا کہ اسے سمجھ نہیں آرہی کہ آخر کب تک ان کو ظلم و بربریت کا شکاربنایا جاتا رہے گا۔ وہ جب اعلیٰ افسران کے پاس اپنی فریاد لے کر جاتے ہیں، تو وہاں سے بھی انہیں مایوس لوٹنا پڑتا ہے۔”اگر ہمیں خدا نے ایسا بنایا ہے، تو اِس میں ہمارا کیا قصور ہے،کیوں ہمیں چین سے جینے نہیں دیا جاتا۔“
خواجہ سراؤں کے تحفظ کا قانون
پاکستان میں خواجہ سراؤں کو حقوق دینے اور اُن کے تحفظ کے لئے 2018ء میں پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کیا گیا تھا جس کو ٹرانس جینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ کا نام دیا گیا تھا۔ مذکورہ قانون کے بعد خواجہ سراؤں کو کافی حد تک حقوق ملے لیکن تاحال اُن کا تحفظ ممکن نہ ہوسکا، اور نہ معاشرے نے خواجہ سراؤں کو تسلیم ہی کیا۔ اس حوالے سے سماجی کارکن شہزاد خان نے بتایا کہ جب تک معاشرے کی سوچ کو تبدیل نہیں کیا جاتا، اور خواجہ سراؤں کو معاشرے کے دیگر افراد کی طرح تسلیم نہیں کیا جاتا، تب تک خواجہ سرا برادری اسی طرح کسمپرسی کی زندگی گزارے گی اور اِن پر اسی طرح سے تشدد کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ”ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018کے تحت خواجہ سراؤں کو روزگار کرنے،ووٹ دینے،اپنا نمائندہ انتخابات کے لئے کھڑا کرنے کا حق دیا گیا ہے جب کہ اب تک اُس قانون کا عملی شک نہیں دی گئی۔مسئلہ ہماری سوچ کا ہے۔ ہم جانوروں کے ساتھ تو پیار کرتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، لیکن خواجہ سراؤں سے ہمیں نفرت ہوتی ہے۔ کئی بار قوانین پاس کئے گئے لیکن ابھی تک خواجہ سراؤں کے حوالے سے معاشرے کی سوچ کو تبدیل نہیں کیا جا سکا۔“
وادئی سوات کی طرح ملک بھر میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات کی خبریں روز ہی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ بیشتر واقعات میں خواجہ سراؤں کو مارا بھی گیا ہے لیکن تاحال اس اہم مسئلے اور معاشرے کے اس اہم طبقہ کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی، اور نہ معاشرے میں اِنہیں وہ مقام ہی ملا جو قوانین اور حقوق کی رو سے اِن کو ملنا چاہیے۔ جس طرح سوات میں خواجہ سرا آپے سے باہر ہوتے رہتے ہیں، اور پولیس چوکیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، ا اگر جلد ہی اِن کے لئے موثر قانون سازی نہیں کی گئی تو اس برادری کو ملک بھر میں کنٹرول کرنا ناممکن ہو جائے گا۔