خبریں

سوات، میٹرک کے بعد سات ہزار طلباء غائب ہوگئے

عدنان باچا،سوات

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سمیت پورے صوبے کے تعلیمی اداروں میں ہائی میرٹ اور سیٹوں کی کمی کی وجہ سے ہزاروں طلباء ہر سال انٹرمیڈیٹ میں داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں، کچھ طلباء دیگر اضلاع یا صوبوں کو چلے جاتے ہیں جبکہ زیادہ تر میٹرک کے بعد تعلیمی سلسلہ ختم کردیتے ہیں۔کالجز میں سیکنڈ سفٹ کلاسز کے آغاز کے باوجود اس سال 7476 طلباءنے سوات کے کسی بھی سرکاری یا نجی کالج میں داخلہ نہیں لیا۔

760 نمبر حاصل کرکے بھی داخلہ نہ مل سکا

سلیمان خان جن کا تعلق سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے ہیں، حالیہ میٹرک امتحانات میں سلیمان خان 760 نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم سوات کے کسی بھی سرکاری کالج میں اُسے داخلہ نہ مل سکا۔ سلیمان خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت سے کالجز میں داخلے کے لئے اپلائی کیا لیکن میرٹ میں نہ آنے کی وجہ سے مجھے داخلہ نہ مل سکا۔

” نرسنگ و ٹیکنکل کالجز سمیت نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں اور ناہی معاشی حالت س قدر اچھی ہے کہ میری فیملی میرے تعلیمی اخراجات اٹھا سکیں”

سلیمان خان کے مطابق داخلہ نہ ملنےکی وجہ سے میں نے مینگورہ شہر کے ایک دکان میں کام کرنا شروع کیا ہے، میری کوشش ہے کہ میں پرائیویٹ داخلہ لے کر صرف امتحان دے سکوں ،تاہم کسی بھی نجی تعلیمی ادارے میں بھاری فیس پر تعلیم حاصل کرنا میرے بس کی بات نہیں۔

سات ہزار سے زائد طلباء کہاں غائب ہوگئے؟

سوات میں حالیہ میٹرک کے امتحانات میں ہزاروں طلباء نے حصہ لیا تھا ، تین اضلاع سوات،بونیراور شانگلہ پر مشتمل سوات تعلیمی بورڈ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2022 کے میٹرک امتحانات میں مجموعی طور پر کل 44714 طلبا و طالبات نے حصہ لیا تھا جس میں 39658 کامیاب قرار پائے تھے ۔سوات تعلیمی بورڈ کے اعداد وشمار کے مطابق اس سال انٹرمیڈیٹ فرسٹ ائیر میں مجموعی طور پر 32182 طلباء نے داخلہ لیا ہے جس میں 19928 سرکاری کالجز،7689 نجی کالجز اور 4565 طلباء و طالبات نے امتحان کے لئے پرائیویٹ داخلہ لیا ہے ۔اس تناسب سے اگر سوات تعلیمی بورڈ کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو میٹرک کے پاس ہونے والے 39658 طلباء و طالبات میں 32182 نے انٹرمیڈیٹ فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا ہے جبکہ 7476 طلباء ایسے ہیں جو میٹرک کے امتحان میں تو پاس ہوگئے تھے لیکن سوات کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں فرسٹ ائیر میں داخلہ نہیں لے پائے ہیں۔

ان سات ہزار طلباء کے داخلہ نہ لینے کے حوالے سے جب چھان بین کی گئی تھی یہ معلوم ہوا کہ ان سات ہزار میں تقریباً دس فیصد طلباء ایسے ہیں جو دیگر اضلاع یا دیگر شہروں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لے چکے ہیں جبکہ چار سو کے قریب طلباء ہر سال نرسنگ و ٹینکل کالجز میں داخلے لیتے ہیں۔ زیادہ تر طلباء داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کردیتے ہیں۔

تعلیمی میدان میں نمبروں کی دوڑ

صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح سوات کے تعلیمی اداروں میں بھی نمبروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور طلباء کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ نمبر حاصل کرکے اچھے کالج میں داخلہ لے سکیں۔ سال 2022 میں سوات تعلیمی بورڈ کے نتائج کے مطابق میٹرک کے امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر1080 تھے جبکہ دوسری پوزیشن 1079 اور تیسری1078 نمبر حاصل کرنے والے طالب علم کی تھی۔

سرکاری کالجز میں میرٹ میں نا آنے اور گنجائش کی کمی کی وجہ سے 7689 طلباءو طالبات نے نجی کالجز میں داخلہ لیا۔ نجی کالج کی ایک طالبہ ماہ نور جس نے 970 نمبر حاصل کئے ہیں بتاتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ اسے کسی بھی لڑکیوں کے سرکاری کالج میں داخلہ نہیں ملا جس کی وجہ سے اُس نے مجبوراً نجی کالج میں داخلہ لیا،” اب میری کوشش ہے کہ انٹرمیڈیٹ میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرسکوں تاکہ MDCAT ٹیسٹ کے لئے پھر اپلائی کرسکوں”

اس حوالے سے ماہر تعلیم اور سماجی کارکن عارف صدیقی کا کہنا ہے کہ سرکاری کالجز میں گنجائش نہ ہونے اور دوسری جانب کالجز میں میرٹ میں نہ آنے کی وجہ سے طلباء کو داخلہ نہیں ملتا ہے کیونکہ اب صرف سوات نہیں بلکہ بونیر،شانگلہ،دیر اور ملاکنڈ کے طلباء بھی سوات کے کالجز میں داخلوں کے لئے آتے ہیں۔ حکومت نے سکولوں کو اپ گریڈ کیا، سیکنڈ شفٹ کا آغاز کیا نئے کالجز بنوائے لیکن اب بھی بہت سے طلباء سرکاری کالجز میں داخلوں سے محروم رہتے ہیں۔

تعلیمی میدان اور تحریک انصاف حکومت کے اقدامات

سوات میں ہزاروں طلباء کو داخلہ نہ ملنے کے مسلے کے حل کے لئے تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے بہت سے اقدامات کئے ہیں جن میں سب سے بڑا کام یہ کیا گیا کہ ہائی سکولوں کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا، ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فضل خالق خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت میں چالیس سکولوں کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا اور اُس میں بھی سیکنڈ شفٹ کلاسز کا آغاز کیا گیا۔

سابقہ ایم پی اے و ڈیڈک چئیر مین فضل حکیم خان کا کہنا ہے کہ سوات میں تعلیم کےلئے سب سے زیادہ کام والی سوات نے کیا تھا جبکہ اُس کے بعد کسی بھی حکومت نے تعلیم کی جانب توجہ نہیں دی، تحریک انصاف کے نو سالہ دور حکومت میں تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات اٹھائے گئے۔ فضل حکیم خان کے مطابق ضلع بھر میں سات نئے کالجز تعمیر کئے گئے، شگئی،ودودیہ اور دیگر نسکولوں کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا، مختلف علاقوں میں نئے سکول تعمیر کئے گئے، مینگورہ ڈگری کالج اور جہانزیب کالج کی عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا اور گنجائش سے زیادہ کلاسز بنائے گئے، اخون بابا میں نئے ڈگری کالج کی تعمیر پر کام جاری ہے، شگئی میں لڑکیوں کے کالج کا آغاز کیا گیا، کالج کالونی میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے بی ایس کالجز کھولے گئے۔
” جن سکولوں میں کمروں کی کمی تھی انہیں نئے سرے سے تعمیر کرکے زیادہ کمرے بنائے گئے ”

مسلے کا حل کیا ہوگا؟

تعلیمی ماہرین یہ مانتے ہیں کہ کالجز میں جہاں ایک طرف ہائی میرٹ ہی ہزاروں طلباء کا مستقبل داؤ پر لگا رہی ہے وہی دوسری جانب آبادی میں اضافہ کی وجہ سے کالجوں میں طلباء کو ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوگیا ہے ،لیکن اس مسلے کا حل اُن کی نظر میں موجود ہے ۔ عارف صدیقی کہتے ہیں کہ جس طرح پوری دنیا اب ورچول تعلیم اور آن لائن سسٹم سے منسلک ہو گئی ہے ان ہزاروں طلباء کو بھی اُسی ماڈل میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے ۔اگر ایک کالج سو طلباء کو داخلہ دیتی ہے تو وہ تین سو کو داخلہ دے، سو طلباء کے کلاسزز مارننگ، سو کے دوپہر اور سو طلباء کو آن لائن تعلیم دی جا سکتی ہے ۔

جہانزیب کالج اور ڈگری کالج مینگورہ سوات کےقدیم اور بڑےتعلیمی ادارے ہیں جس نے یہ ثابت کردیا کہ میرٹ کے بغیر بھی طلباء کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے ۔جہانزیب کالج کے منتظم جنت گل کے مطابق اس سال جتنے بھی طلباء نے فرسٹ ائیر میں اپلائی کیا ان سب کو داخلہ دیا گیا ہے ،ایک شفٹ مارننگ میں ہوتی ہے اور دوسری آفٹر نون کو ہوتی ہے ۔

اس سال سوات کے دوبڑے کالجز کی حکمت عملی کیا رہی؟

جہانزیب کالج کے ایڈمشن سپرنٹنڈنٹ سٹوڈنٹس افئیرز جنت گل کا کہنا ہے کہ اس سال فرسٹ ائیر میں مجموعی طور پر 10ہزار 217 طلباء نے اپلائی کیا تھا جن میں 1536 طلباء کو داخلہ دیا گیا ہے۔مارننگ شفٹ میں 818 طلباء کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے جبکہ آفٹر نون شفٹ میں 718 طلباء کو داخلہ دیا گیا ہے ۔ جنت گل نے بتایا کہ جوریزڈکشن اور سوات کے لوکل جتنے بھی طلباء نے اپلائی کیا تھا اُن سب کو ایڈجسٹ کیا جا چکا ہے جبکہ سوات اور جوریزڈکشن سے باہر پچاس کے قریب طلباء داخل کرائے گئے ہیں۔

” نان لوکلز کے لئے میرٹ انتہائی کم رکھا گیا تھا ،770 تک نمبر حاصل کرنے والے طالب علموں کو فرسٹ ائیر میں داخلہ دیا جا چکا ہے ”

ڈگری کالج میں بھی سیکنڈ شفٹ کا آغاز کیا گیا جس میں طلباء کو ایڈجسٹ کیا گیا، سابقہ ایم پی اے فضل حکیم خان کا کہنا ہے کہ ہم نے کالجز سمیت ہائیر سیکنڈری سکولوں میں بھی سیکنڈ شفٹ کا آغاز کیا جس سے یہ مسلہ کافی حد تک حل ہوگیا اور جو بچے داخلوں سے محروم رہ جاتے تھے انہیں کالجز میں دخلے مل گئے اور ان کا قیمتی سال ضائع ہونے سے بچ گیا۔

ڈی ڈی او فضل خالق خان کے مطابق ہر سیکنڈری سکول میں دو سو تک طلباء کو ایڈجسٹ کیا گیا، حکومت نے سیکنڈ شفٹ کا آغاز کرکے ایک انقلابی کام کیا،مینگورہ چارباغ اور اسلامپور میں پندرہ بیس کے قریب سکول ایسے ہیں جس میں سیکنڈ شفٹ میں فرسٹ ائیر کے کلاسز بھی لئے جاتے ہیں جبکہ پرائمری لیول تک کے سکولوں میں بھی سیکنڈ شفٹ کا آغاز کیا جا چکا ہے ۔

میرٹ کو کم کرنا اور پرسنٹائل سسٹم لاگو کرنا حل ہوسکتا ہے

ڈی ڈی او سوات فضل خالق خان کہتے ہیں کہ میرٹ کا ہونا بہت ضروری ہے ،اگر میرٹ کا قصہ ختم کردیا جائے تو ادارے کسی پوزیشن پر نہیں پہنچ سکتےاور نا ہی وہ کارکردگی دکھا سکتے ہیں بلکہ طلباء میں بھی اچھے نمبر حاصل کرنے کی دوڑ ختم ہو جائے گی۔
” میری نظر میں مسلے کا حل یہی ہے کہ مزید کالجز میں سیکنڈ شفٹ کلاسز کا آغاز کیا جائے اور اُس کے ساتھ ساتھ آن لائن کلاسز کے اجراء کا انتظام کیا جائے”

نجی کالج کے پرنسپل فضل ربی کا کہنا ہے کہ پرسنٹائل سسٹم کی بدولت کم نمبر حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو سرکاری کالجز میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے

” پرسنٹائل سسٹم میں میرٹ پرسنٹیج کی بناء پر ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ 900 نمبروں والے طلباء کو داخلہ ملے گا اور899 نمبر حاصل کرنے والے طلباء داخلوں سے محروم ہوں گے، بلکہ داخلے پرسنٹیج کی بناء پر دئے جائیں گے، مثال کے طور پر جن طلباء کی پرسنٹیج 60سے65 میں ہو ان کو داخلے دئے جائیں ،اس سے یہ ہوگا کہ بہت سے طلباء جو ایک یا دو مارکس سے داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں ،وہ کالجوں میں ایڈجسٹ کر لئے جائیں گے۔

سیکنڈ شفٹ کے ساتھ آن لائن کلاسز کا آغاز انقلاب لا سکتا ہے

پاکستان میں آن لائن تعلیم کے فروغ کے لئے ورچول یونیورسٹی کا ماڈل بھی اس مسلے کا بہترین حل نکال سکتا ہے ، ورچول یونیورسٹی میں ہفتہ وار لائیو سیشنز اور ایل ایم ایس ، ویڈیو ریکارڈڈ لیکچرز کے ذریعے طلباء و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے ،ورچول یونیورسٹی سوات کیمپس کے منتظم جنید خان کے مطابق ان کی یوینورسٹی میں بی ایس اور ایم ایس کے طلباء داخلہ لیتے ہیں، اگر حکومت انٹرمیڈیٹ کے طلباء کے لئے آن لائن کلاسز کا اجراء کرتی ہے تو اس سے ہزاروں طلباء کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ سکتا ہے ،

” ہماری خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہے، ہم انٹرمیڈیٹ طلباء کے لئے سرکاری کالجز میں رئیل ٹائم آن لائن کلاسز کا آغاز کرسکتے ہیں ، ایک کلاس میں جہاں سو طلباء بیٹھے ہوتے ہیں اور لیکچر سنتے ہیں،اسی لیکچر کو ہم آن لائن سو سے زائد طلباء کو دکھا سکتے ہیں”

ورچول یونیورسٹی کا ماڈل کیسا ہے ؟

ملک بھر کی طرح سوات میں بھی ورچول یونیورسٹی کے کیمپس میں ہر سال سیکڑوں طلباء داخلہ لیتے ہیں ،جہاں پر بی ایس اور ایم ایس آفر کئے جاتے ہیں، ورچول یونیورسٹی کے منتظمین کے مطابق وہ آن لائن کلاسز، ویڈیو رکارڈڈ لیکچرز اور اسائمنٹس کے ذریعے طلباء کو پڑھائی کرتے ہیں، اُن کے ساتھ اس وقت سوات سمیت دیگر اضلاع سے تین سو سے زائد طلباء رجسٹرڈ ہے۔

"طلباء کی حاضری بھی آن لائن لی جاتی ہے، ان کے لئے ہفتہ وار ویڈیو رکارڈڈ لیکچرز تیار کئے جاتے ہیں اور ہفتہ میں ایک لائیو سیشن ہوتا ہے جن میں طلباء سوال جواب بھی کرتے ہیں”

سوات میں کالجز کی کمی ،آبادی میں اضافے اور دیگر اضلاع کے طلباء کی سوات آمد کے باعث بیشتر کالجز نے آفٹرنون کلاسز کا آغاز تو کرلیا ہے لیکن اب بھی ہزاروں طلباء حصول تعلیم سے محروم ہے ، تعلیمی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اس مسلے کا واحد حل یہی ہے کہ جہانزیب کالج اور ڈگری کالج کی طرح دیگرکالجز میں میرٹ کو کم کیا جائے یا پرسنٹائل سسٹم متعارف کیا جائے، سیکنڈ شفٹ اور تھرڈ شفٹ کا آغاز کیا جائے اور سب سے اہم و ضروری کام آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جائے تاکہ ہر سال داخلوں سے محروم رہ جانے والے ہزاروں طلباء تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

Back to top button