Blog

سویلین بالادستی دستی ، خواب سے سراب تک کا سفر

میٹرک  تک کی مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کی کتب میں جب ملک کا نام بتایا جاتا تھا تو وہ ” اسلامی جمہوریہ پاکستان ” ہوا کرتا تھا۔ تب صرف اسلام کی کچھ سمجھ آتی تھی مگر جمہوریہ لفظ جتنا یاد رکھنے اور لکھنے میں مشکل لگتا تھا اتنا ہی سمجھنے میں بھی ۔ یقین کیجئے آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی ہمارے بچے "اسلامی جمہوریہ پاکستان ” ہی کے رٹے لگا رہے ہیں جبکہ ان کے آباو اجداد یہاں جمہوریہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے منوں مٹی تلے جا سوے جبکہ زندہ انسان اسی جمہوریہ کے حصول کی تگ و دو میں ایوانوں کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں آنے والی تحریک عدم اعتماد اور پھر سانحہ 9 مئ  یقینا آنے والی تاریخ کی کتابوں میں رقم کیلئے جائیں  گے مگر ان کا موضوع،  رخ کے کس حصے کا تعین کرے گا یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔ 8 فروری 2024 ، ملک میں عام انتخابات کے دن عوام سے نا صرف انٹرنیٹ کی سہولت چھین لی گئ بلکہ "اسلامی جمہوریہ پاکستان ” موبائل فون کی سروس کو بھی بند کر دیا گیا ۔ سنا ہے یہ سب اپنے اس گمان کو مزید سچ میں بدلنے کے لیے کیا گیا کہ ” جو آئینہ ہم دیکھائیں گے وہی چہرہ منظور نظر ہو گا”۔

تاریخ نے لیکن پلٹا کھایا اور قسمت کا پہیہ "جمہوریہ” کی جانب چلنا شروع ہوا۔ عوام نے ووٹ کو واقعی طاقت ثابت کرتے ہوئے سیاست ہر قابض قوتوں کو اپنا فیصلہ تو سنا دیا مگر ملک کو مزید بے یقینی کی  صورت حال کا شکار کر  ضرور کر دیا۔ اس سب صورت حال کا ایک اثر یہ ہوا کہ پیتل پر سے سونے کا ملمع اترنا شروع ہوا جسے بین الاقوامی سطح پربھی  بیان کیا جانے لگا۔

دُنیا بھر میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے "دی اکانومسٹ” کے انٹیلیجنس یونٹ کی "ڈیموکریسی انڈیکس 2023 ”  رپورٹ میں پاکستان میں رائج طرزِ حکمرانی کو ’اتھاریٹیریئن‘ یعنی آمرانہ قرار دیا  گیا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 150 سے زائد ممالک میں رائج نظامِ حکومت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ماضی میں یہ طرز حکمرانی "ڈیموکریٹک حکمرانی ” مانی جاتی تھی۔

اس وقت بھی الیکشن کو گزرے دو سے زائد ہفتے ہو گئے مگر حکومت کی تشکیل ایک  مشکل مرحلہ صرف اس لیے لگ رہا ہے کہ 8 فروری کو طاقت کے زور پر جس سیاسی جماعت ، اس کے ورکرز اور ووٹرز کو ڈرا کر سسٹم سے دور رکھنے کی کوشش کی گئ تھی وہی جماعت آزادی کے 75 سے زائد برسوں بعد خوف کے یہ بت توڑنے میں کامیاب ہوئی مگر ووٹ کے ذریعے انہیں ملا واضح مینڈیٹ آج بھی کسی اور کی چاہ کا محتاج ہے۔ بظاہر یہ سب کر کے ایک پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہو رہی ہے مگر دوسری جانب یہ سب کرنے والے خود اپنے چہروں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔

ایک بار پھر حکومت:  مکس آچار” بنتی نظر تو آ رہی ہے مگر اس بار ان کے پیچھے کا منظر بہت واضح نظر ا رہا ہے۔ 9 مئ کے بعد جیلوں میں بند نوجوان بچوں اور بچیوں کے 8 فروری کی کامیابی پر بلند نعرے ، پوشیدہ قوتوں کو یہ واضح پیغام دیتے نظر آئے کہ جو انقلاب فیض احمد فیض نا لا سکے وہ ہم جیسے ( اپکی نظر میں ) ”  برگر ” اور سوشل میڈیای نسل لا چکی ہے۔ خوف اور غلامی کا دور اب اختتام کے قریب ہے ۔  دھاندلی،  دھاندلی کی بلند ہوتی صدائیں،  پریس کانفرنس،  عدالتی فیصلے،  پٹیشنز،  اس ایک ایک عمل نے سسٹم کو مکمل بے نقاب کر دیا۔

پاکستان میں نئ نسل ہم سے پہلے ” جمہوریہ ” کے معنی سیکھ چکی ہے جس کی واحد وجہ وہ لیڈر ہے جسے پابند سلاسل تو کر دیا گیا مگر اسے جھکنے اور بکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔  جسے الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے سزا در سزا سنائی جاتی رہی اور اسکی کردارکشی اور تذلیل کے لیے اس کے اور اس کی زوجہ کے ذاتی تعلق تک کو عدالتوں میں زیربحث لایا گیا۔  سب سعی لاحاصل رہا مگر۔

طاقت کا نشہ ، زندگی میں سب سے بڑا نشہ ہے ۔

ماں لیجئے جیسے ساس کبھی بخوشی اپنا اقتدار بہو کو منتقل نہیں کرتی بالکل ایسے ہی یہ رٹ ، جسے برسوں بعد کسی نے چیلنج کیا ہے اتنی جلدی اپنی ہار تسلیم نہیں کرے گی۔  نئ نسل مگر "امید سے ہے ” کہ شائد حبیب جالب نے انہیں کے لیے کہا تھا ۔۔

ا میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ظلم کی بات کو جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

۔

Back to top button