سوات میں پر تشدد واقعات، یہ نئے سیزن کا آغاز تو نہیں؟
عدنان باچا،سوات
سوات میں حالیہ پرتشدد واقعات نے ایک بار پھر خوف کی فضاء قائم کردی ہے جبکہ حکومتی اور انتظامی خاموش بیانئے نے بھی کئی سوالات پیدا کردئے ہیں، لوگ اس کو سوات سیزن ٹو کا نام دے رہے ہیں اور حکومت پر الزامات لگا رہے ہیں کہ کشیدگی کا دوسرا باب حکومتی اور اداروں کی رضامندی سے کھیلا جا رہا ہے ۔
سوات میں حالیہ پر تشدد واقعات
سوات کی تحصیل کبل کے علاقہ برہ بانڈئی کوٹکے میں بدھ کے روز امن کمیٹی کے رکن ادریس خان کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ ہوا ،جس میں ادریس خان ،دو پولیس اہلکار اور پانچ راہگیر جاں بحق ہوئے تھے۔ واقعے کے حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرزاہد نواز مروت کا کہنا تھا کہ بم کو سڑک کے درمیان میں نصب کیا گیا تھا ، امن کمیٹی کے رکن کی گاڑی پہنچتے ہی زور دار دھماکہ ہوا ، واقعے کے بعد پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی اورجائے وقوعہ سے شواہد اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ جاں بحق افراد کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے سیدو شریف اسپتال منتقل کیا گیا۔
اگلے ہی روز تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی گئی تھی۔
بدھ کے روز ہی سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقہ جانا میں موبائل کمپنی کے ٹاور میں کام کرنے والے سات ملازمین کو اغواء کیا گیا تھا اور دس کروڑ تاوان کی مانگ کی تھی ، بعد ازاں اغواء ہونے والے سات افراد میں سے پانچ افراد کو رہا کیا گیا جبکہ دو افراد ابھی بھی اُن کے قبضے میں ہیں۔صوبائی اسمبلی کے رکن سردار خان کو دھمکی آمیز خط موصول ہوا ،جس میں لکھا گیا تھا کہ اگر جان عزیز ہے تو رقم ادا کی جائے بصورت دیگر سنگین نتائج کے لئے تیار رہے جس کے بعد رکن صوبائی اسمبلی کے بیٹے نے خوازہ خیلہ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی۔
ایک مہینہ قبل ہی 8 اگست کو مٹہ کے پہاڑوں میں ڈی ایس پی پیر سید سمیت پانچ افراد کو مبینہ طور پر طالبان نے اغواء کیا تھا جس کے بعد لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور حکومت نے اعلامیہ جاری کیا کہ طالبان واپس چلے گئے ہیں جبکہ مغوی اہلکاروں کو رہا کیا گیا ، 15 اگست کو پولیس نے اُس مقام پر چیک پوسٹ بھی قائم کرلی تھی جہاں پر طالبان کی موجودگی کی اطلاع تھی ۔
سوات میں طالبان کی آمد کیسے ہوئی؟
افغانستان سے براستہ دیر اگست کے مہینے طالبان داخل ہوئے،علاقے میں طالبان کی موجودگی کی اطلاعات ملتی رہی، ڈی ایس پی کو اغواء کئے جانے کے بعد اطلاعات درست ثابت ہوئی۔ سیکورٹی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ طالبان افغانستان سے سوات میں داخل ہوئے ہیں۔اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا ہوئے کہ آخر طالبان کو واپس آنے کی اجازت کس نے دی تھی۔اس حوالے سے طالبان کمانڈر کی ایک آڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات،معاہدے اور فائر بندی کی صورت میں وہ اپنے علاقوں میں واپس آئے ہیں۔اس حوالے سے سینئیر صحافی آصف خان نے بتایا کہ طالبان کو باقاعدہ طور پر اجازت دی گئی تھی کہ وہ سوات کے پہاڑوں میں قیام پذیر ہو جائے کیونکہ ان کے ساتھ مذکرات جاری تھے اور معاہدہ ہونے والا تھا۔
’’طالبان کی یہاں صرف موجودگی کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن حالیہ واقعات نے ایک بار پھر یہاں کے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا، واقعات سامنے آئیں اور خوف کی فضاء قائم ہوئی‘‘
تشویش کی لہر اور ابھرتے سوالات
سوات میں حالیہ کشیدگی کی لہر کے بعد لوگوں میں ایک بار پھر خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور لوگ کئی سوالات حکومتی نمائندوں سے پوچھ رہے ہیں، کہ طالبان واپس کیسے اور کیوںآئے؟ حکومت اور طالبان سوات کے لوگوں کو شامل کئے بغیر مذاکرات کیوں کر رہی ہے؟ سوات میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر کو کیوں ہوا دی جا رہی ہے ؟
سماجی کارکن ظفر حیات نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے بہت سے جنازے اُٹھائے ہیں، بے گھر ہوئے ہیں، تباہی دیکھی ہے ہم مزید تباہی نہیں دیکھ سکتے، ہم مزید کسی بھی کھیل کا حصہ نہیں بن سکتے۔
حکومت حالیہ واقعات کے تناظر میں اپنا موقف یہاں کے لوگوں پرواضح کریں، کہ کیوں طالبان واپس آئے ہیں اور وہ کونسی مجبوری ہے جس کی بناء پر طالبان کے ساتھ مذکرات کئے جا رہے ہیں، ’’ان مذاکرات میں سوات کے لوگوں کی رائے کیوں نہیں لی جا رہی؟‘‘
سابق وفاقی وزیرمراد سعید نے بھی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے نامعلوم نقاب پوشوں اور اُن کو لانے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے قبل بھی ڈی ایس پی کو اغواء کیا گیا، ہمارے ایم پی ایز کو دھمکیاں دی گئی اور اب بھی دی جا رہی ہے جو سمجھ سے باہر ہے ۔
مراد سعید کا مزید کہنا تھا کہ جب طالبان واپس چلے گئے تھے تو دوبارہ کیوں آئے؟ سوات میں ایک بار پھر خون کی ہولی کیوں کھیلی جا رہی ہے؟
“ہم نے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں بیش بہا قربانیوں کے بعد امن قائم کیا ہے جسے سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، طالبان کو اپس لانے والے اپنا موقف سامنے رکھے اور عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی کو دور کریں’
سوات کے لوگ امن چاہتے ہیں
سوات میں کشیدہ حالات کے تناظر میں جہاں ایک طرف لوگ خوف کا شکار ہے وہی دوسری جانب سوات کی سول سوسائٹی امن کے لئے سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ نشاط میں امن کے لئے مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جس پر امن کے لئے نعرے درج تھے ۔
مظاہرے میں شریک شہاب شاہین نے بتایا کہ سوات میں امن کے قیام میں حکومت اپنا کردار ادا کریں اگرحکومت ایسا نہیں کرتی تو مجبوراً ہمیں اسلحہ اٹھانا پڑے گا۔
” ہم مزید اپنوں کی لاشیں نہیں اٹھا سکتے ہیں، یہاں کی عوام نے استحکام پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں تو ان قربانیوں کا ازالہ کیا جائے اور ہمیں پر امن رہنے دیا جائے”
خوازہ خیلہ میں کالج کے طلباء نے جمعرات کے روز سڑکوں پر نکل پر امن کے لئے نعرہ بازی کی،طالب علموں کا کہنا تھا کہ امن کی بگڑتی ہوئی صورتحال ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو شدید متاثر کر رہی ہے ، ہمیں امن چاہئے، حکومت امن بحال رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
کشیدگی کے دوسرے مرحلے کا آغاز
سوات کے زیادہ تر لوگ جنہوں نے اس سے قبل بھی بد امنی اور کشیدہ حالات دیکھے ہیں ان کا کہنا ہے کہ شروعات تو وہی ہے جو پہلے تھی لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ لوگ اس کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں اور حکومت کا کردار کس طرف جاتا ہے ۔ ادیب و دانشور لیاقت علی خان نے بتایا کہ جس طرح سوات میں کشیدگی کا ایک دور گزرا ہے یہ بالکل اسی طرح ہے، سب سے پہلے خوف پھیلایا جائے گا اور پھر لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا۔
” حالیہ واقعات میں اگر حکومت کا کردار دیکھا جائے تو کچھ خاص نہیں، کھل کر کوئی بیانیہ سامنے نہیں آ رہا جس سے عوام میں پھیلی بے چینی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ”
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سوات کے عوام پہلے کی طرح نہیں رہے اس بار طالبان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ امن کے لئے نکالی جانے والی ریلیوں اور مظاہروں سے ثابت ہوچکا ہے ۔اگر حکومت اس کو سد باب یہاں پر کرتی ہے تو مزید نقصانات سے بچا جا سکتا ہے ۔