تحریک انصاف کے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہندو پنڈتوں کو شاردا مندر تک رسائی دینے اور لائن آف کنٹرول سے مذہبی یا ثقافتی سیاحت کا سلسلہ شروع کرنے سے قبل ضروری ہے کہ بھارت لگ بھگ چار ماہ سے معطل آرپار تجارت اور بس سروس کی بحالی کے لیے اقدامات کرے۔
پاکستان ہندو کونسل کے پانچ رکنی وفد کے ہمراہ گذشتہ روز پاکستان کے زیرِ اہتمام کشمیر کی وادیِ نیلم کے مقام شاردا میں ہندوؤں کے قدیم مندر کا دورہ کرنے کے بعد مظفر آباد میں میڈیا سے بات چیت کے دوران تحریکِ انصاف کے رہنما رمیش کمار نے کہا کہ ماحول سازگار ہونے پر لائن آف کنٹرول کے آر پار مذہبی اور ثقافتی مقامات تک رسائی دینے پر بات کی جا سکتی ہے، تاہم موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ لائن آف کنٹرول پر لگ بھگ چار ماہ سے بس سروس جزوی طور پر جبکہ تجارت مکمل طور پر بند ہے۔
شاردا یونیورسٹی کیا ہے؟
شاردا قدرتی حسن سے مالامال وادی نیلم میں ایک قدیم قصبہ ہے جو قدرتی مناظر اور سیاحتی اہمیت کے علاوہ کشمیر کی قدیم تہذیبوں کے مرکز کے طور پر مشہور ہے۔
اسی قصبے میں دو ہزار برس قدیم شاردا یونیورسٹی واقع ہے جس کا قیام کنشک دور میں عمل میں آیا تھا اور یہ مقام سنسکرت کے عالموں کا گڑھ رہا ہے۔ اس وادی کا نام ہندوؤں کی شاردا دیوی سے منسوب ہے جو علم کی دیوی سمجھی جاتی ہیں۔
ماہر آثار قدیمہ اور یونیورسٹی آف آزاد جموں کشمیر کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ سید خان بتاتی ہیں کہ، ‘اگرچہ شاردا میں موجود کھنڈرات کے طرز تعمیر سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ ہندوؤں کا مقدس مقام ہے تاہم ماضی میں یہ مقام بدھ مت، شیو مت اور جین مت کا بھی علمی و تہذیبی مرکز رہا ہے اور اس کے آثار نہ صرف کشمیر میں بلکہ ارد گرد کے دوسرے علاقوں میں بھی ملتے ہیں۔’
ڈاکٹر رخسانہ خان کا دعویٰ ہے کہ آثار قدیمہ کے دستیاب شواہد کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاردا دراصل گندھارا اور سندھ سے متوازی ایک الگ تہذیب ہے جس کا نہ صرف اپنا رسم الخط ہے بلکہ اس کے سینٹرل ایشیا کی تہذیبوں کے ساتھ زمینی تجارتی اور ثقافتی روابط کے شواہد موجود ہیں۔
کشمیری پنڈتوں کو شاردا مندر تک رسائی دینے کے حوالے سے ڈاکٹر رخسانہ کہتی ہیں کہ اس سے منقسم کشمیریوں کے درمیان روابط کی بحالی میں مدد ملے گی البتہ وہ ڈاکٹر رامیش کمار سے متفق ہیں کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی مراحل کا طے ہونا باقی ہے اور یہ پاکستان اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات پر منحصر ہے۔
ڈاکٹر رخسانہ خان کے بقول، ‘شاردا کو اس کی تہذیبی، علمی اور تاریخی اہمیت کے اعتبار سے وسیع تر تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ کسی ایک مذہب یا کمیونٹی سے اس کو منسوب کرنا شاردا کی بین الاقوامی اہمیت کو محدود کرنے کے مترادف ہو گا۔ شاردا کشمیر میں بسنے والے تمام قدیم مذاہب کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور اس پر ابھی بہت سارا تحقیقی کام ہونا باقی ہے۔
شاردا مندر منصوبے کا فوکل پرسن
اس سے قبل کرتار پورہ راہداری کے افتتاح کے بعد رامیش کمار نے میڈیا سے بات چیت میں دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کشمیری پنڈتوں کو شاردا مندر تک رسائی دینے سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں اس منصوبے کا فوکل پرسن مقرر کیا ہے اور ان کے بقول ان کا حالیہ دورہ شاردا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
بھارت کے زیر اتنظام کشمیر کے جموں صوبے میں مقیم کشمیری پنڈتوں کی تنظیم ‘شاردا تحفظ کمیٹی’ گذشتہ کئی سالوں سے شاردا مندر کو کشمیری پنڈتوں کے لیے کھولنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور انہوں نے ا س سلسلے میں پاکستان اور بھارت کے حکام کو متعدد خطوط بھی لکھے ہیں۔ تاہم ماہرین کے بقول اس میں کئی قسم کی انتظامی، قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں حائل ہیں۔
ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا، ’جس طرح بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہندو کمیونٹی شاردا آنا چاہتی ہے، اسی طرح یہاں سے لوگ وہاں مذہبی مقامات پر جانا چاہتے ہیں۔ خود میری بھی خواہش کے کہ میں ان خوبصورت وادیوں میں جا سکوں دیکھ سکوں مگر اس کے لیے ابھی بہت سے مراحل سے گزرنا ہے۔‘
ہیریٹج ٹورازم ابھی قبل از وقت
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر منحصر ہے کہ اس سلسلے کو کیسے آگے بڑھایا جائے تاہم اس مرحلے پر لائن آف کنٹرول کو مذہبی مقاصد یا ہیریٹج ٹوارزم کے لیے کھولنے کی بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔ البتہ پاکستان کے اندر سے ہندو برادری یہاں آنا چاہے تو وہ ان مقامات کی زیارت کے لیے آ سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکومت کے ساتھ مل کر کوشش کر رہے ہیں متروکہ مندروں کی بحالی اور تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جا سکے اور اس سلسلے میں یہاں کی حکومت بھی کافی دلچسپی رکھتی ہے۔’
ایک سوال کے جواب میں رامیش کمار کا کہنا تھا کہ ان متروکہ مندروں کی زیارت لیے اگر بیرون ملک سے کوئی آنا چاہیے تو وہ رائج الوقت ویزا اور ٹورازم پالیسی کے تحت زیارت کے لیے یہاں آ سکتا ہے تاہم یونیسکو کے انٹیکویٹی ایکٹ کے تحت متروکہ مذہبی مقامات پر عبادت یا مذہبی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں کی اجازت دینا ممکن نہیں۔
دریں اثنا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے دفتر سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعظم نے پاکستان ہندو کونسل کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی ریاست ہے۔ ‘ڈوگرہ راج کے خلاف یہاں کہ لوگوں کی جدوجہد مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر اپنے حقوق اور خوداختیاری کے لیے تھی۔ کشمیر کی تاریخ میں مذہبی انتہا پسندی کبھی نہیں رہی۔ 1947 میں جموں صوبے میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد صورتحال خراب ہوئی۔ اس ریاست میں رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان ہمیشہ مثالی بھائی چارہ رہا ہے۔ آزادکشمیر حکومت اقلیتوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ اور ان کی بحالی کے لیے منصوبہ رکھتی ہے۔’ تاہم پریس ریلیز میں وفد کے دورہ شاردا یا اس دوران ہوئی کسی قسم کی پیش رفت کا ذکر نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام اس حوالے سے بات کرنے میں ہچکچاہت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو