Blog

نوجوان نسل کتابوں سے دور کیوں۔۔۔؟

دنیا کی کوئی بھی ترقی یافتہ قوم لائبریری سے بے نیاز نہیں رہ سکتی ۔ لائبریری کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ خاص طور سے تعلیمی و تدریسی زندگی میں تو لائبریری کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، کتابیں علم وحکمت کا خزانہ ہوتی ہیں اور شعور وٗ ادراک کی دولت قوموں کو اسی خزانے سے حاصل ہوتی ہے۔ کسی بھی قومی معاشرے میں کتب خانوں سے ایک طرف تو امن اور دوستی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو قوموں کے افراد کے ذہنوں کو تخلیقی اور تعمیری رجحانات دیتی ہے اور وہ تہذیب وتمدن سے آشنا ہو کر اتحاد و اتفاق سے زندگی گزارنے کا فن سیکھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے جہاں ایک جانب ہماری زندگی میں آسانیاں پیدا کیں ہیں وہیں اس کےمعاشرے پر مضر اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں جن میں سے ایک نقصان یہ بھی ہے کہ موبائل فون، انٹرنیٹ اور بالخصوص سماجی رابطوں کی ویب سائٹ نے ہماری نوجوان نسل کو کتاب سے دور کردیا ہے۔جہاں ایک جانب نوجوانوں نے کتابوں سے رخ موڑا تو دوسری جانب سرکاری اداروں نے بھی کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینے کےلئے اقدامات کرنے کی بجائے لائبریاں بند کرنے کو فوقیت دی۔ ملک بھر میں قائم لائبریریاں جو کبھی علم و فکر کا مرکز ہوا کرتیں تھیں اب یا تو بند ہوچکیں ہیں یا خستہ حالی کا شکار ہیں۔ان میں سے ایک ضلع نوشہرہ کی تحصیل پبی کی تحصیل میونسپل اتھارٹی کے دفتر میں قائم لائبریری بھی ہے جس کو تیرہ سال قبل بند کردیا گیا تھا اوراس کے بعد سےآج تک پوری تحصیل میں کوئی لائبریری نہیں بن سکی۔

تحصیل پبی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اسد علی کہتے ہیں کہ وہ جب وہ طالب علم تھے تو کالج سے واپسی پر اکثر لائبریری جانا انکا اور انکے دوست کا معمول ہوتا ہے۔ جہاں سے چند روز کےلئے کتابیں لیکر ان کا مطالعہ کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ رجحان کم ہوتا گیا اور پھر وہ وقت آگیا جب کئی کئی دن تک لائبریری کوئی نہیں جاتا تھا۔

اسد علی کہتے ہیں کہ پبی تحصیل میں یہ واحد لائبریری تھی جہاں نہ صرف کتابیں پڑھنے کو ملتی تھی بلکہ بڑوں یعنی دانشوروں، ریٹائرڈ سرکاری افسران اور ادیبوں سے سیکھنے کا موقع بھی ملتا تھا تاہم لائبریری کی بندش کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اسد علی کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ ٹیکنالوجی نے دیگر شعبوں کی طرح کتابوں کو بھی ڈیجیٹل کردیا ہے اور اب کتب لیپ ٹاپ اور موبائل فون پر آگئیں ہیں لیکن یہ کسی بھی صورت لائبریری کا متبادل نہیں ہوسکتیں، لائبریری میں نہ صرف کتابیں دستیاب ہوتیں تھیں بلکہ مطالعے کا ماحول بھی میسر آتا تھا۔

اٹھارہ سالہ ایاز خان پرائیویٹ کالج میں بارہویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں کبھی پبلک لائبریری جانے کا اتفاق نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی کلاس میں استاد نے لائبریری جانے یا نصاب سے ہٹ کر کسی کتاب کا مطالعہ کرنا کی ہدایت کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نصاب سے ہٹ کر کتاب پڑھنے کا وقت بھی نہیں ملتا، کالج سے واپس آکر ٹیوشن اور پھر اسائمنٹ وغیرہ مکمل کرتے ہی دن گزر جاتا ہے۔

سماجی تنظیم ایجنسی فار ہیومن ڈویلپمنٹ کے عہدیدار شاہین خان نے بتایا کہ انہوں نے پبی میں منعقدہ ضلع ناظم وضلعی انتظامیہ کے افسران کے سامنے پبی ٹی ایم اے بلڈنگ میں قائم لائبریری کو دوبارہ بحال کرانے کا مطالبہ کیا تھا اس وقت تو افسران نے اسے بحال کرنے کےلئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم آج تک کوئی پیش رفت ہوتی دیکھائی نہیں دی۔

شاہین خان کہتے ہیں کہ مذکورہ لائبریری کی بندش سے اب اگر کسی طالب علم کو ریسرچ کرنی ہوتو وہ بیس سے پچیس کلومیٹر دور نوشہرہ میں قائم لائبری جانا پڑتا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اسے بحال کرنے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے بھی انتظام کرے۔

گزشتہ سال سینیٹ اجلاس میں وزارت تعلیم نے تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے بتایا تھا کہ کہ پاکستان میں 116سرکاری یونیورسٹیاں ہیں،ان میں سے 114 کے پاس لائبریری ہیں تاہم بڑی یونیورسٹیوں کے پاس کتابوں کی تعداد پانچ ہزار سے کم ہے۔

وزارت تعلیم کے مطابق نوازشریف انجینیرنگ یونیورسٹی ملتان کی لائبریری میں صرف 1986کتابیں ہیں ،نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد کی لائبریری میں صرف 2702کتابیں،شہیدبینظیربھٹو یونیورسٹی برائےحیوانی سائنسزکی لائبریری میں صرف 3600 کتابیں ،شہید ذوالفقارعلی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد لائبریری کے پاس صرف 1100 کتابیں،یونیورسٹی آف بلتستان کی لائبریری میں صرف 1506 کتابیں،یونیورسٹی آف فاٹا کی لائبریری کے پاس صرف 1379 کتابیں ،یونیورسٹی آف لورالائی کی لائبریری کے پاس صرف 3000 کتابیں ، ویمن یونیورسٹی صوابی کی لائبریری کے پاس 5 ہزار کتابیں ہیں۔

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے عہدیدار پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنے یا کتابوں کی نوعیت بدلنے سے لائبریاں بند کرنے کی بجائے انہیں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کرنا چاہئے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں ای لائبریریاں قائم کی گئیں ہیں اور ایک مثالی منصوبہ ہے ملک کے باقی صوبوں کو بھی اس سلسلے میں پنجاب سے سیکھنا چایئے اور کتب بینی کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ قوم کا مستقبل ریسرچ اور مطالعہ سے جڑا ہوتا ہے۔

رابطہ کرنے پر سابق ضلع ناظم نوشہرہ اشفاق احمد خان نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ پبی میں لائبریری کی بحالی کی تجویز ان کے سامنے آئی تھی اور اس کے لئے انہوں نے اقدامات بھی کرنا شروع کردیئے تھے تاہم بلدیاتی نظام ختم ہونے کے سبب یہ کام التواء کا شکار ہوگیا۔ انہوں نے بتایا کہ لائبریری کی بحالی یا نئی لائبریری کے قیام کےلئے جگہ نہیں مل رہی تھی، ہم نے کوشش کی جگہ کا بندوبست ہوسکے لیکن فوری طور پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

پرانی لائبریری کی بندش کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک تو لائبریری میں لوگوں کا آنا بہت کم ہوگیا تھا دوسرا انتظامی معاملات کی وجہ سے لائبریری کی دیکھ بھال مشکل ہوگئی تھی پھر کچھ عرصے کے لئے ٹی ایم اے پبی غیر فعال رہی تو اسی دوران لائبریری کو بھی بند کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لائبریری کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ہماری کوشش ہوگی کہ پبی میں لائبریری کے قیام کو ممکن بنایا جاسکے۔

Back to top button