خبریں

مالاکنڈ تعلیمی بورڈ کا پیپر چیکنگ اور ری چیکنگ کا کاروبار

ابوزر دسویں جماعت کے ان 60 ہزاروں 30 طالبعموں میں سے ہے۔ جس نے سال 2012 ری ٹوٹلنگ کیلئے اپلائی کیا اور ایک پیپر میں ایک نمبر زیادہ ہوا۔ابورز کہتا ہے کہ یہ ایک نمبر بھی پورے چیکنگ کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان ہے۔اب استاد کی زہنی صلاحیت پیپر چیک کرنے کی قابل نہیں اور بورڈ نے اس کو ہاتھ میں پیپر تھما دیا کہ آپ نے پیپر چیک کرنے ہیں۔یہاں استاد سو سے کم نمبر جمع کرانے میں کمزور ہے تو یہ اعتبار کیسے کیا جائے کہ وہ پیپر چیک کرنے کے قابل تھا؟

معلومات تک رسائی ایکٹ 2013 کے زریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پچھلے دس سالوں میں جماعت نہم و دہم کے 60 ہزار 30 طلبا و طلبات نے ری ٹولینگ کیلئے اپلائی کیا جس میں سے نو ہزار سات سو 51 طلبا و طلبات کے نمبر تبدیل ہوئے۔ یعنی گزشتہ دس سالوں کے 16 فیصد جماعت نہم اور دہم کے طلباء و طالبات کے نمبر غلط جمع ہوئے۔سال 2009 میں 64 فیصد طلباء و طالبات کے نمبر غلط جمع ہوئے۔

دستاویزات کے مطابق گیارویں اور بارہویں جماعت کے 38 ہزار نو سو 95 طلبا و طلبات نے ری ٹوٹلنگ کیلئے اپلائی کیا جس میں 6 ہزار 55 طلبا و طلبات کے نمبر تبدیل ہوئے۔یعنی پچھلے 12 سالوں کے دوران گیارویں اور بارہویں جماعت کے 15.2 فیصد طلباء و طالبات کے نمبر غلط جمع ہوئے۔

اس حوالے سے جب ملاکنڈ بورڈ کے کنٹرولر میاں وزیر جان ساجد سے رابطہ ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ اساتذہ یہ سوچ کر پیپر چیک کرتے ہیں کہ پیسے کتنے ملیں گے یہ نہیں کہ کس بچے نے محنت کیا تاکہ اس کو تسلی کے ساتھ اس کو وہ نمبر ملے جس کیلئے محنت کیا ہے۔ استاد کا مقصد ذیادہ پہسے بنانے کے لئے ذیادہ پیپر چیک کرنا ہوتا ہے۔

ایک دور ایسا تھا کہ ملاکنڈ بورڈ میں ایک استاد کو 10 سے 12 ہزار پیپر تک دیئے گئے ہیں جس کا ریکارڈ موجود ہے۔اب یہ یقیناً بورڈ کی غلطی ہے۔لیکن اس کے بعد 2 منٹ میں ایک ایک پیپر چیک کرنا شروع گیا جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ 2 جمع 2 کو استاد صاحب نے 3 کردیا۔

چونکہ ہم ری چیکنگ نہیں بلکہ ری ٹوٹلنگ کرتے ہے جس میں غلطی نکلنے کی گنجائش کم ہونی چاہئے تھی۔کیونکہ 100 سے کم نمبر جمع کرانا کوئی مشکل کام نہیں۔لیکن 10 ہزار پیپر کچھ دنوں میں چیک کرنے میں اس طرح کی غلطی ضرور ہوگی جو بورڈ اور اساتذہ کیلئے باعث شرم ہے۔

کنٹرولر بورڈ میاں وزیر جان ساجد سے جب سوال کیا گیا کہ سال 2009 میں ری چیکنگ کے دوران 64 فیصد طلبا و طلبات کے نمبر تبدیل ہوئے تو اس کیلئے قصور بچوں کا ہے یا بورڈ کا؟اس سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ یہ قصور بورڈ اور ان اساتذہ کا ہے جو پیپر چیک کرتے ہیں اور 100 تک نمبر جمع نہیں کرسکتے ہوش کے ساتھ۔پچھلے سال یعنی 2019 میں ریٹوٹلنگ کے دوران جس اساد کے چیکنگ میں غلطی نکل ائی اس استاد سے 500 روپے کاٹ دی۔تاکہ ائندہ یہ غلطی یہ کریں۔اس پر بہت سے اساتذہ نے احتجاج بھی کیا لیکن کوئی بھی استاد محترم یہ سننے کو تیار نہیں تھا کہ استاد محترم نے 100 سے کم نمبر جمع کرانے میں غلطی کی ہے۔اور اس کے ساتھ یہ بھی کیا کہ جس بچے کے نمبر تبدیل ہوئے اس وہ اپنے 600 روپے بورڈ نے واپس کردی۔جو صرف ملاکنڈ بورڈ کے تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا۔

میں جب کنٹرولر بورڈ بنا تو امتحان سے پہلے اساتذہ کیلئے ٹرینگ اور ورکشاپس کئے پھر چار چار استاذہ کا گروپ بنایا تاکہ گروپ کی شکل میں چار حصوں میں ایک ایک پیپر چیک کیا چائے۔سال 2020 کے امتحانات کیلئے ہم نے بہت کوششیں کی تاکہ کسی بھی طلبا و طلبات کے ساتھ ناانصافی نہ ہو لیکں بدقسمتی سے امتحان نہیں ہوا۔

پرائیویٹ سکول اکسفرڈر ایجوکیشن اکیڈمی بٹ خیلہ کے ڈاریکٹر کا کہنا تھا۔کہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں اٹھویں جماعت تک نقل کا تصور تک نہیں ہوتا۔لیکن بورڈ( جماعت نہم و دہم) کے امتحان میں نقل شروع ہوجاتا ہے۔ڈیوٹی کیلئے اساتذہ پرائیوئٹ سکول کیلئے پاگل ہوتے ہیں کہ صرف پرائیویٹ سکول میں ڈیوٹی کرنی ہے تاکہ اچھا کھانا کھاسکے۔ اور پھر پیپر چیک کرنے کیلئے کچھ اساتذہ نے بورڈ میں ٹینٹ لگائے ہوئے ہیں اور پھر اس کے بعد روزانہ ہزار سے زائد تک پیپر چیک کرتے ہیں اس لئے وہ زیادہ پیسے سکیں۔

اب ایک استاد سو تک نمبر جمع نہیں کرسکتا تو وہ استاد جب پورس پیپر چیک کریگا اس کا کیا حشر کریگا۔بورڈ کنٹرولر جو تقریباً سیاسی سفارش کے بغیر ناممکن ہے اس کے بارے میں امجد علی کا کہنا تھا کہ پہلے یہ سب کچھ گورنر کے پاس تھا تو اس تک اپروچ کرنا مشکل تھا اب وزیراعلی کے پاس آگیا ہے تپہ نہیں کہا کہا سے اور کس میرٹ پر بورڈ کیلئے کنٹرولر لائے جاتے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق جماعت نہم و دہم کے طلبا و طلبات کے سال 2008 میں 1725 میں سے 571,سال 2009 میں 1226 میں سے 787،سال 2010 میں 3264 میں سے 1564،سال 2011 میں 5890 میں سے 646،سال 2012 میں 5506 میں سے 605،سال 2012 میں 5506 میں سے 605،سال 2013 میں 4269 میں سے 673،سال 2014 میں 4712 میں سے 685،سال 2015 میں 5744 میں سے 489،سال 2016 میں 4466 میں سے 795،سال 2017 میں 6020 میں سے 896،سال 2018 میں 8632 میں سے 1108،سال 2019 میں 8576 میں سے 932 کے نمبر غلط جمع ہوئے تھے۔

اس طرح گیاہوئے اور بارہویں جماعت کے طلباء وطالبات کے سال 2008 میں 1065 میں سے 252,سال 2009 میں 580 میں سے 298،سال 2010 میں 1269 میں سے 292،سال 2011 میں 2226 میں سے 369،سال 2012 میں 1849 میں سے 271،سال 2013 میں 2298 میں سے 409،سال 2014 میں 2566 میں سے 626،سال 2015 میں 2773 میں سے 600،سال 2016 میں 3408 میں سے 475،سال 2017 میں 6778 میں سے 1057،سال 2018 میں 7018 میں سے 673،سال 2019 میں 7165 میں سے 733 کے نمبر غلط جمع ہوئے تھے۔

اس طرح ری ٹوٹلینگ کے مد میں ملاکنڈ بورڈ نے سال 2008 میں 9,60,955 روپے،سال 2009 میں 34,37755 روپے،سال 2010 میں 51٫59580 روپے،سال 2011 میں 42,18585 روپے،سال 2012 میں 32,79335 روپے،سال 2013 میں 40٫67025 روپے،سال 2014 میں 53٫85320 روپے،سال 2015 میں 45٫30٫000 روپے ،سال 2016 میں 25,96٫180 روپے،سال 2017 میں 73٫50٫000 روپے،سال 2018 میں 89٫32٫100 روپے،جبکہ سال 2019 میں 91,14٫425 روپے طلباء و طالبات سے اکھٹے کئے گئے۔جو مجموعی طور پر 12 سالوں میں 59 کروڑ تین لاکھ 31 ہزار دو سو ساٹ روپے جماعت نہم دہم اور گیاہویں بارہویں جماعت کے بچوں سے جمع کئے گئے۔

Back to top button