غیر موثر انٹی بائیوٹیک ادویات اور ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے کیسز
ٹائی فائیڈ یا معیادی بخار انتڑیوں کی بیماری ہے جو ایک خاص قسم کے بیکٹیریاسالمونیلا ٹائفی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ ٹائیفائیڈ سے 40فیصد اموات ہورہی ہیں،گندہ پانی،مضر صحت خوراک، صفائی کی ناقص صورتحال ٹائیفائیڈ کی بڑی وجہ ہے, شروع میں تیز بخار،کھانسی،جسم میں درد،جسم پر گلابی رنگ کے سرخ دانے اور پیٹ کی خرابی جیسی علامات سامنے آتی ہے اور بعد میں مسلسل لمبے عرصے تک جسم میں ہلکے بخار کا موجود ہونا پایا جاتا ہے۔ٹائیفائیڈ بخار آنتوں کے خون اور پرفوریشن کا سبب بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ پیٹ میں شدید درد،متلی،قے اور عفونت(سیپسس)پیدا کرسکتا ہے۔یہ جراثیم جگر،تلی،پتہ،دماغ کی جھلیاں اور ہڈی کے گودے میں بھی سرایت کرجاتے ہیں اور فضلات کے ذریعے خارج ہوتے رہتے ہیں۔پاکستان میں ٹائی فائیڈ کافی عرصے سے ایک وباء کی شکل اختیار کرچکا ہے بلکہ 2016 کو حیدرآباد،سندھ اور کراچی میں (XDR)ٹائی فائیڈ(Extensive Drug Resistant Typhoid) یاسُپر بَگ ٹائیفائیڈ شدت اختیار کرچکی تھی جس کا مطلب کہ اس بخار میں انٹی بائیوٹیکس کے کثیر تعدادغیر موٗثر ثابت ہورہی ہے، اس حوالے سے نئی تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نہ صرف (XDR)ٹائی فائیڈ خطرے کے گھنٹی بجا رہا ہے بلکہ عام ٹائی فائیڈ بخار بھی انٹی بائیوٹیک ادویات کے خلاف شدید مزاحمت پیدا کرچکا ہے۔یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کی بین الاقوامی طبی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آگئی ہے کی ٹائی فائیڈ بخار کے علاج میں 70سے 80فیصد انٹی بائیوٹیک ادویات غیر موٗثر ہیں،انٹی بائیوٹیک کے بے تحاشا استعمال سے(MDR) ملٹی ڈرگ مزاحمت آئی ہے بلکہ مدافعتی ادویات (ویکسین) بھی غیر موٗثر ہوچکی ہے اور حال ہی میں پاکستان نے نئی ویکسین کا استعمال شروع کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ ریسرچ میں سامنے آیا ہے کہ ٹائی فائیڈ کی تشخیص میں وڈال اور ٹائیفیڈٹ ٹیسٹ کی بجائے بلڈ کلچر ٹیسٹ کرواکر مریض کو انٹی بائیوٹیک ادویات دینی چاہئیں۔
ٹائی فائیڈ بخار سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
پھل اور سبزیاں صاف پانی سے دھوئے بغیر کھانے سے گریز کریں۔
اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں، خصوصاً کھانے سے قبل اور بیت الخلاء کے استعمال کے بعدضرور دھوئیں اور پانی ابال کر پئیں۔
ایسا کھانا ہر گز مت کھائیں جو کمرے کے ٹمپریچر میں رکھا گیا ہو، اس کے بجائے گرم کھانا کھائیں۔
کسی ریسٹورنٹ سے کھانا کھاتے وقت برف استعمال نہ کریں، کیونکہ اس برف کو عام طور پر نکلوں کے آلودہ پانی سے تیار کیا جاتا ہے۔
گلیوں یا کھلے مقامات پر دستیاب کھانوں سے پرہیز کریں۔
ایسا خام گوشت اور سمندری غذا جس میں جراثیم کے ہونے کا خدشہ ہو استعمال نہ کریں۔
کیا کورونا وائرس اور ٹائی فائیڈ کا کوئی تعلق ہے؟
کورونا اور ٹائی فائیڈ کے بخار والی علامات میں فرق ضرور ہے۔ کرونا بخار تیز نہیں ہوتا جبکہ ٹائیفائیڈ میں 103 اور 104 درجے کا بخار ہوسکتا ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار کئی ہفتوں تک ہو سکتا ہے جبکہ کوروناوائرس کی وجہ سے بخار تین سے چار دن تک ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے برطانیہ میں ٹائیفائیڈ بیماری پر کام کرنے والی فلیمنگ فنڈ نامی ایک تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق وائرل انفیکشن اور بیکٹیریل انفیکشن کے درمیان تعلق ضرور موجود ہے۔اس رپورٹ کے مطابق 1918 کے ہسپانوی فلو کی وبا میں یہ دیکھا گیا تھا کہ اس وائرس سے نمونیا جیسی دیگر بیماریاں مریضوں کو لگیں جس سے زیادہ اموات واقع ہوئی تھیں جبکہ 2010 کی سوائن فلو وبا کے دوران بھی 29 فیصد سے 55 فیصد مریض دیگر بیکٹیریل انفیکشن لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔
ہومیوپیتھک ادویات کس حد تک موثر ہے؟
ہومیو پیتھی دنیائے طب میں دوسرا بڑا رائج طریقہ علاج ہے جب کہ قدرت کے اصولوں پر قائم ہومیو پیتھی طریقہ علاج جسم پر ذیلی اثرات نہ ہونے کی بدولت تیزی سے مقبولیت کے مدارج طے کررہا ہے۔
ہومیوپیتھک ادویات میں درختوں اور قدرتی معدنیات کے مادے کی انتہائی کم مقدار استعمال میں لائی جاتی ہے، ہومیوماہرین کے مطابق یہ مادہ صحت کی بحالی کے عمل کو تیز کرتاہے۔
ہومیوپیتھی برازیل، چلی، بھارت، میکسیکو، پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے قومی صحت کے نظام میں شامل ہے جبکہ یورپ،فرانس اور برطانیہ ودیگر ممالک میں بھی تیزی سے مقبول ہورہا ہے، اگرتعداد کے اعتبار سے دیکھاجائے تو بھارت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ ہومیوپیتھک ڈاکٹروں سے علاج کراتے ہیں، ان کی تعداد 10کروڑ بنتی ہے۔
یورپ میں قریباً دس کروڑ لوگ اپنی روزہ مرہ زندگی میں ہومیوپیتھک ادویات استعمال کرتے ہیں۔ یہ تعداد مجموعی یورپی آبادی کا 29 فیصد بنتی ہے۔ یادرہے کہ یورپ کے مجموعی 42 ممالک میں سے40 ممالک میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج سے استفادہ کیاجاتاہے۔ اگرصرف برطانیہ کی بات کریں تو وہاں کی 10فیصد آبادی ہومیوپیتھک علاج کرتی ہے، ان کی تعداد تقریباً 60لاکھ بنتی ہے۔ یہاں ہرسال ہومیوپیتھک ادویات کی مارکیٹ میں 20فیصد کا اضافہ ہورہاہے۔ اس وقت برطانیہ میں 400 ہومیوپیتھک ڈاکٹرزموجود ہیں جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں جبکہ نان کوالیفائیڈ ہومیومعالجین کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔پاکستان میں بھی اس وقت ہومیوپیتھک ادویات کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور نا صرف قابل علاج بیماریوں کی شفایابی کیلئے بغیر کسی جسمانی مزاحمت کے ادویات استعمال ہورہی ہے بلکہ ناقابل علاج بیماریوں میں بھی بڑی حد تک کامیابیاں مل رہی ہے۔
ہومیوپیتھک ادویات اور ٹائیفائیڈ؟
جس طرح دیگر بیماریوں میں ہومیوپیتھک ادویات سے بغیر کسی سائیڈ ایفیکٹ کے مریضوں کو مکمل شفایابیاں مل رہی ہیں اسی طرح سے ٹائی فائیڈ جیسی متعدی اور مزاحمت پیدا کردہ بیماری جو مسلسل پیچیدگیاں پیدا کررہا ہے اور انسانی جسم اس بیماری کے خلاف مسلسل خطرناک مزاحمت پیدا کرچکا ہے،اس میں ہومیو ادویات بہت ہی کامیابی سے استعمال کروائی جارہی ہے، جس سے نا صرف ٹائی فائیڈ بخار ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ آنے والے دور میں اس وبائی صورتحال پر قابو بھی پایا جاسکتا ہے۔اب دنیا کی ضرورت ہے کہ ہم متبادل طریقہ علاج یعنی ہومیوادویات سے استفادہ حاصل کریں جس سے ہماری قوت مدافعت اس قابل ہوسکتی ہے کہ ہم نا صرف موجودہ دور کی بیماریوں سے جان چھڑواسکتے ہیں بلکہ آنے والے دور کی مختلف بیماریوں سے بچنے کیلئے ہماری قوت مدافعت کا مظبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔