انسانی حقوقخبریں

سوات: ایک سال میں 27 بچے جنسی ذیادتی کا شکار

ملک بھر کی طرح وادی سوات میں بھی بچوں کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا اُن سے ذیادتی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،بعض اوقات ایسے انہیں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ وادی سوات میں ایک سال کے دوران27 بچوں کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا۔جنسی ذیادتی کےذیادہ تر واقعات میں ملوث ملزمان کو سزائیں دی گئیں لیکن کچھ واقعات ایسے تھے جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے اور بیشتر میں متاثرہ گھرانے اور ملزمان میں راضی نامے ہوئے۔ ماہرین کا کہناہے کہ سخت قانونی سازی اور مجرموں کو سخت سزائیں دینے سے ہی اِن واقعات کی روک تھام ہو سکتی ہے۔

جنسی ذیادتی کے واقعات میں اضافہ
پاکستان میں آئے روز بچوں کے ساتھ ذیادتی اور قتل کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔محکمہ پولیس کی جانب سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق صرف وادی سوات میں جنوری2019 سے جنوری2020 تک 27 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں بچوں کے ساتھ ذیادتی کی گئی یا اُن کے ساتھ یہ فعل کرنے کی کوشش کی گئی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفس سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق سوات میں رونما ہونے والے واقعات کے تمام ملزمان کو چائیلڈ پروٹیکشن ایکٹ2010 کے تحت سزائیں دی گئی ہیں جبکہ اس میں دو واقعات ایسے ہیں جن میں ملزمان رشتہ دار ہونے کےباعث دونوں فریقین کے راضی نامے کئے گئے ۔ تحصیل خوازہ خیلہ میں مارچ 2019 میں ایک سات سالہ بچے کے ساتھ اُس کے چچا ذاد نے ذیادتی کی۔ پولیس کے مطابق واقعے کی رپورٹ درج ہوئی اور ملزم گرفتار بھی ہوا لیکن بعد ازاں دونوں فریقین نے راضی نامہ کرلیا اور کیس خارج کردیا گیا۔

بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ’ ساحل‘ کی جانب سے 2019 میں ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس کے مطابق جنوری سے جون 2019 تک بچوں کے ساتھ ذیادتی کے1304 واقعات سامنے آئے جن میں سے 614 واقعات میں زیادتی کرنے والا بچے کا رشتہ دار تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 203 واقعات میں بچے کو اپنے ہی گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ300 واقعات میں رشتہ دار نے بچے کو اپنے گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا، رپورٹ کے مطابق 12 بچے مدرسے میں اس فعل کا نشانہ بنے جبکہ162 واقعات کھیت،گلی اور جنگلوں میں پیش آئے۔

ساحل تنظیم کی ترجمان سدرہ ہمایوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان اعداد وشمار میں بہت سے جرائم شامل ہی نہیں ،جو متاثرہ بچوں کے والدین پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے،’’ زیادہ تر ایسے کیسز ہوتے ہیں جن میں متاثرہ بچے کا کوئی نہ کوئی قریبی رشتہ دار ،پڑوسی یا جاننے والا ملوث ہوتا ہے اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ایسے کیسز پولیس کو رپورٹ نہیں کئے جاتے۔‘‘
’بدنامی کے ڈر سے خاموشی بہتر ہے


وادی سوات میں ایسے درجنوں واقعات رونما ہوئے جن میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی لیکن متاثرہ بچوں کے والدین نے بدنامی کے ڈر سے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کی۔ سوات کی تحصیل کبل کے رہائشی عبداللہ (فرضی نام) جن کے سات سالہ بچے کے ساتھ مدرسے میں زیادتی کی گئی تھی ،واقعے کے بارے میں بتاتے ہے کہ اُس کے بچے کو مدرسے میں اُس کے مولوی نے زیادتی کا نشانہ بنایا ، بچے نے گھر آکر مجھے مولوی کے خلاف شکایت کی تو میں فوراً اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ مدرسے پہنچا لیکن ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی مولوی غائب ہوچکا تھا’’ میں نے پولیس اسٹیشن کا رُخ کیا تو میرے بھائیوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کردیااور کہا کہ اس سے ہماری بدنامی ہوگی اور بچے کے مستقبل پر منفی اثرات پڑیں گے جس کے بعد ہم نے چپ سادھ لی اور کسی کو کچھ نہیں کہا ‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر آج بھی وہ مولوی مجھے کہیں دکھائی دیا تو میں اُس کی جان لے لوں گا،مجھے اب افسوس ہے کہ میں نے پولیس کو کیوں نہیں بتایا اگر بتا دیتا تو شاید آج میرے بچے کو انصاف مل پاتا اور مولوی کو سزا بھی مل جاتی ۔
وادی سوات میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے ڈی ایس پی دیدار غنی کا کہنا ہے کہ جتنے بھی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اُن میں تمام ملزمان کو چائیلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت سزائیں دی جا چکی ہے ’ زیادہ تر کیسز میں بچے کے والدین رپورٹ نہیں کرتے اور سجھتے ہیں کہ معاشرے میں اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا جس کے باعث مجرموں کو مزید حوصلہ ملتا ہے اور وہ دیگر علاقوں میں جا کر پھر وہی واقعات دہراتے رہتے ہیں جن سے ایسے کسیز میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے ‘‘۔
سخت قانون سازی ناگزیر ہے

خیبر پختونخوا میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ بھی موجود ہے جس کے تحت مجرموں کو سزائیں دی جاتی ہیں لیکن حال ہی میں پارلیمانی کمیٹی نے بچوں سے زیادتی اور تشدد کی روک تھام کے لئے سخت سزائیں تجویز کی ہیں جن میں مجرم کی پھانسی کی ویڈیو اور آڈیو کی تشہیر بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کی تجاویز کہا گیا ہے کہ بچوں سے ذیادتی میں ملوث افراد کی سزاوں میں کسی قسم کی معافی نہیں ہوسکے گی اور عمر قید کی سزاء طبعی موت تک کی ہوگی، جبکہ سرعام پھانسی کی بجائے سزائے موت پانے والے مجرموں کی پھانسی کی ویڈیو اور آڈیو بنا کر اس کی تشہیر کی جاسکتی ہے۔

خیبر پختونخوا میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ2010 سے موجود ہے لیکن اس کے تحت اضلاع میں بننے والی چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔سوات میں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن ضیاء اللہ خان کا کہنا ہے انہی کمیٹیوں کے تحت بننے والے تحصیل اور گاؤں کے درجے کی کمیٹیاں سرے سے ہے ہی نہیں۔ایسے میں ریپ اور جرائم کے بارے میں آگاہی لوگوں تک پہنچنا ممکن نہیں ’’پروٹیکشن ایکٹ کے تحت گاؤں اور تحصیل کی سطح پر کمیٹیاں قائم کی گئی تھی جس میں علاقہ عمائدین،پولیس اور سماجی کارکنان شامل تھے لیکن کچھ ہی عرصہ میں وہ کمیٹیاں غیر فعال ہو گئی،زیادہ تر علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پر سرے سے کمیٹیاں قائم ہی نا ہو سکی کیونکہ اس موضوع کے حوالے سے ہمارے قدامت پسند معاشرے میں کوئی بات تک کرنے کو تیار نہیں ہے ‘‘۔

وفاقی وزیر علی محمد خان نے قومی اسمبلی سے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرنے والوں کو سرعام پھانسی کی قرار داد پاس کی تھی جس کی کئی سماجی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں نے مخالفت بھی کی تھی ۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق اگر سخت سے سخت قوانین نافذ کئے جائے اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جائے تو اس کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ والدین بھی اپنے بچوں پر نظر رکھیں تو جنسی تشدد کے واقعات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔

Back to top button