خبریں

تھیلسیمیا کیا ہے؟

تھیلسیمیا ایک یونانی لفظ "تھیلس” سے ماخوذ ہے جس کے معنی سمندر ہے چونکہ یہ بحیرہ روم کے اردگرد پایا جاتا تھا،امریکی ماہر اطفال تھامس کولی نے ڈاکٹر پرل لی کے ساتھ مل کر پہلی بار1927؁ء میں اس بیماری کو دریافت کیا اور اٹلی کے مریضوں میں اس کی علامات مشاہدہ کی گئی۔تھیلسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو کہ والدین سے جینزکے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے یہ ایک خطرناک جنیاتی بیماری ہے جس میں والدین سے ملنے والے جینز جو کہ ایک یا بعض اوقات دونوں متاثر یا خراب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تھیلسیمیا کے مریضوں میں معیاری اور مناسب خون بننے کا عمل ناکارہ ہوتا ہے۔ہیموگلوبن اور سرخ ذرات خون کی نامناسب اور غیر معیاری بننا مریضوں کو مختلف قسم کی پیچیدگیوں کا شکار کردیتی ہے بلکہ دوسری بیماریوں کی طرف بھی رجحان بڑھ جاتا ہے۔بون میرو کی اس جنیاتی خرابی کی وجہ سے نا صرف خون کا عمل خراب ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر عضو بھی بیماری کی ذد میں ہوتے ہیں۔ان مریضوں کو ہفتے یا مہینے میں خون لگانا بہت ضروری ہوتا ہے، بروقت خون نہ ملنے کی وجہ سے مریض کی موت بھی ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں حکومتی سطح پر کوئی سروے نہیں کیا گیا لیکن بلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق بی ٹا تھیلسیمیا مائنر کی شرح 6فیصد ہے یعنی 2000؁ء میں ایک اندازے کے مطابق 80ہزار سے زائد بچے اس خطرناک بیماری کے شکارتھے جبکہ ہر سال 5000تا9000بچے بی ٹا تھیلسیمیا کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں یہ شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔جبکہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان جیسے صوبوں میں جہاں پشتون خاندان کے اندر شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہاں یہ شرح زیادہ پایا جاتا ہے۔اس لیے خاندان کے اندر شادی کرنے کو روکنا ہوگا اور اس کے ساتھ شادی سے پہلے تھیلسیمیا ٹیسٹ کے ذریعے اس بات کو واضح کیا جاسکتا ہے کہ وہ دونوں تھیلسیمیا مائنر کے شکار تو نہیں، اگر والدین میں دونوں کو تھیلسیمیا مائنر ہوگا تو بچے تھیلسیمیا میجر کے شکار ہوں گے جو کہ جان لیوا ہے۔

تھیلسیمیا کی تین اقسام
پہلی قسم۔ تھیلسیمیا مائنر:اس قسم میں متاثرہ مریضوں میں ایک جین والدین سے صحیح منتقل ہوا ہوتا ہے جبکہ ایک میں نقص،خرابی یا ابنارمل ہوتا ہے۔اس قسم میں کچھ خاص پیچیدگیاں،علامات یا بیماری پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک خاموش کئیریر ہوتا ہے جو اگلی نسل میں منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے۔
دوسری قسم۔ تھیلسیمیا انٹرمیڈیا:یہ درمیانی قسم ہے جس میں ہیموگلوبن کی مقدار کم ہوتی ہے اور مریض کو بروقت خون لگانا پڑتا ہے، بار بار خون لگانے کی وجہ سے مختلف قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں جیسے، آئرن لیول کا بڑھ جانا، جگر کا بڑھ جانا،تلی کا بڑھ جانا وغیرہ۔
تیسری قسم۔ تھیلسیمیا میجر:یہ قسم سب سے زیادہ خطرناک ہے جس میں والدین سے ملنے والے دونوں جینز ناکارہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں میں خون نہیں بن رہا ہوتا اور بار بار خون لگانے کی ضرورت پیش آتی ہیں اگر بروقت خون نہ ملے تو مریض کی جان بھی جاسکتی ہے اور بار بار خون لگانے کی وجہ سے مریض مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار رہتا ہے۔

تھیلسیمیا اور مختلف طریقہ علاج
تھیلسیمیاایک جنیاتی بیماری ہے ماہرین کے مطابق اس کا کوئی علاج نہیں،مریض کی علامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مختلف ادویات استعمال کروائی جاتی ہے۔تھیلسیمیامائنر کے مریضوں میں خون کی کمی کیلئے فولک ایسڈ کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بی ٹا تھیلسیمیامیجر کے مریضوں کو ہر دو سے چار ہفتوں کے بعد خون لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے آئرن کی مقدار جسم میں نقصان دہ حد تک بڑھ جاتی ہے۔جس کے لیے Desferroloxamineنامی دوائی ڈرپ میں ڈال کر مریض کو استعمال کروائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ اس قسم کی ادویات گولیوں کی شکل میں بھی استعمال کروائی جاتی ہیں۔تھیلسیمیا میجر کا علاج ہڈی کے گودے یعنی Bone Marrow Transplant کے ذریعے کیا جاسکتا ہے جس پر 15سے 20لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ایلوپیتھک طریقہ علاج کے علاو ہ د یگر متبادل طریقہ علاج میں بھی اس کی منیجمنٹ، مختلف میڈیسن اور اس کی خصوصیات پر وقتاً فوقتاً ریسرچ کیا جاتا ہے۔

متبادل طریقہ علاج / ہومیوپیتھک ادویات
ہومیوپیتھک ادویات جو کہ ہندوستان،بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں ناقابل علاج بیماریوں میں متبادل طریقہ علاج کے طورپر استعمال کروائی جاتی ہیں تو وہیں پر تھیلسیمیا جیسی خطرناک بیماری کی منیجمنٹ میں بھی ہومیوپیتھک ادویات کامیابی سے استعمال ہورہی ہیں، جنیاتی بیماریوں میں ہومیوپیتھک ادویات بہت ہی فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔تھیلسیمیا انٹرمیڈیا میں ہیموگلوبن کی مقدارکم ہوتی ہیں جو کہ ہومیو ادویات سے بڑھائی جاسکتی ہیں اور خون لگوانے کا دورانیہ اس طرح بڑھایاجا سکتا ہے۔اس کے ساتھ تھیلسیمیا میجر جیسی خطرناک کنڈیشن میں بھی یہ ادویات فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں، جبکہ باربار خون لگوانے کی وجہ سے پیدا شدہ دیگر بیماریاں یا پیچیدگیاں بھی دور کی جاسکتی ہیں، جیسے آئرن لیول کا بڑھ جانا، تلی کا بڑھ جانا، جگر یا دل کا بڑھ جانا وغیرہ۔ہندوستان یا دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں ہومیوپیتھک ڈاکٹرزاور اس شعبہ کے ماہرین اس پر کام کررہے ہیں جن میں ڈاکٹر غلام یاسین صاحب سرفہرست ہیں، وہ سحر فاؤنڈیشن کے نام سے پاکستان میں ہومیوپیتھک ادویات کے ذریعے 16قسم کے بلڈ کینسر پر کام کررہے ہیں جن میں تھیلسیمیامائنر،انٹرمیڈیا اور میجر بھی شامل ہیں ان کے ریسرچ ورک کے مطابق ہومیوپیتھک ادویات خون کے متعلق خطرناک بیماریوں میں بہت ہی مفید ہیں۔یہ ادویات پاکستان میں بن بھی سکتی ہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی فراہم کی جاسکتی ہیں۔حکومتی اداروں کو چاہیئے کہ دیگر طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہومیوپیتھی طریقہ علاج پر بھی توجہ دیا جائے بلکہ چاروں صوبوں میں ریسرچ سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں پر ایسی خطرناک اور لاعلاج بیماریوں میں ہومیوپیتھک ادویات کی افادیت کو ریکارڈ کیا جاسکے اور ریسرچ ورک بڑھایا جاسکے جو کہ صحت مند پاکستان کے خواب کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔

Back to top button