اسلام آباد بلدیاتی انتخابات، غیریقینی صورتحال کے باعث امیدوار تذبذب کا شکار
اسلام آباد: وفاقی دارلحکومت میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال کے باعث امیدوار تذبذب کا شکار ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نےجماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی درخواست پر 30 دسمبر کی شام کو مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے اگلے روز یعنی 31 دسمبر کو ہی الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی حکومت نےاسلام آباد ہائی کورٹ کےمذکورہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی استدعا کی۔
الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کی اپیلوں کی سماعت گزشتہ روز چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ ہائی کورٹ نے سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی جانب سے اسلام آباد کےلوکل گورنمنٹ کے قانون میں ترمیم اورنئی حلقہ بندیوں کے باعث 19 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔
صدر پاکستان کی جانب سے لوکل گورنمنٹ بل پر دستخط کئے جانے کے بعد یہ یہ قانون فوری طور نافذ العمل ہو گا اور اس کے تحت یونین کونسل کی تعداد 125 ہو گی۔ میئر اور ڈپٹی میئر کی نشست کسی بھی صورت خالی ہونے پر دوبارہ براہ راست انتخاب ہو گا۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ اگر کسی بھی وجہ سے الیکشن ملتوی ہو جائیں تو دوبارہ کرانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟، جس پرالیکشن کمیشن کے ڈی جی لا نے بتایا کہ اس صورت میں پولنگ کی نئی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کی صورت میں کتنے دن چاہییں؟۔ جس پر ڈی جی لا نے بتایا کہ پھر ہم 120 دنوں میں الیکشن کرا سکتے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 30 دسمبر کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم عدالت کی عزت اور احترام کرتے ہیں لیکن کل انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ ایک ہزار کے قریب پولنگ سٹیشن ہیں، اتنے کم وقت میں انتظامات کرنا ممکن نہیں ہے۔
دارالحکومت کی101 یونین کونسلزکیلئے کُل 3,976 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔
بلدیاتی انتخابات 13 رکنی پینل کے طور پر لڑے جاتے ہیں ، ہر یونین کونسل میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کے امیدوار کے ساتھ ساتھ چھ جنرل ممبران، دو خواتین ممبران، ایک ’کسان‘ ورکر، ایک یوتھ ممبر اور ایک اقلیتی امیدوار کی سیٹیں ہوتی ہیں۔