حالات حاضرہکورونا

ایم پی اے عبدالاسلام صحت یاب،کے ایم سی کی لیبارٹری کے معیار پر سوالات اٹھنے لگے

مردان، کرونا وائرس کا شکار ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عبدالاسلام آفریدی ایک ہفتے میں صحت یاب ہوگئے، رکن اسمبلی کی رپورٹ منفی (نیگیٹو) آنے کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی لیبارٹری کے معیار پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ سیاسی مخالفین اس پورے عمل کو پروپگینڈہ قرار دے رہے ہیں۔

مورخہ 27 مارچ کو عبدالاسلام آفریدی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کرونا وائرس کی تشخیص کی تصدیق کرتے ہوئے خود کو گھر میں قرنطینہ کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم صرف ایک ہفتے گزرنے کے بعد ہی انہوں نے ایک اور ویڈیو پیغام جاری کیا اور اس میں خود کو صحت یاب قرار دیتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔

ایم پی اے کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور ایم پی اے عبدالاسلام آفریدی کے کردار پر مختلف سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور ان سے ٹییسٹ رپورٹ منظرعام پر لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

عبدالاسلام آفریدی نے اپنی کسی بھی ویڈیو میں کسی بھی لیبارٹری کا نام نہیں لیا جہاں سے ان کے ٹیسٹ کرائے گئے ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق 27 مارچ کو آنے والی خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کی رپورٹ میں 57 سالہ محمد سلام میں کرونا وائرس کی تشخص کی تصدیق کی گئی ہے۔ محمد سلام نامی شخص کی اس رپورٹ کو ایم پی اے عبدالسلام نے اپنی رپورٹ تسلیم کرتے ہوئے خود کو قرنطینہ کردیا تھا۔

جس کے بعد تحریک انصاف کے دیگر اراکین اسمبلی افتخار مشوانی، ملک شوکت، امیر فرزند اور صوبائی رہنما انجینئر عادل نواز، ساجد اقبال مہمند و دیگر عبدالاسلام کے پرسنل سیکرٹری افسر خان نے بھی اپنی سرگرمیوں محدود کرتے ہوئے اپنے نمونے ٹیسٹ کےلئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ اف ہیلتھ اسلام آباد (این آئی ایچ) بھجوائے جن کی رپورٹ دو دن قبل موصول ہوئی۔ ذرائع کے مطابق این آئی ایچ کی رپورٹ میں کسی بھی رہنما بشمول ایم پی اے عبدالاسلام آفریدی کرونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی۔

ایم پی اے عبدالاسلام آفریدی اور ان کے ساتھیوں کی رپورٹ منفی آنے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کی جانب سے اسے اعلیٰ قیادت کی توجہ حاصل کرنے کےلئے پروپگینڈہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ بعض افراد نے خیبر میڈیکل یورنیورسٹی کی لیبارٹری کے معیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

اس حوالے سے جب عبدالاسلام آفریدی کے پرسنل سیکرٹری افسر خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جب پہلی رپورٹ ایم پی اے کو موصول ہوئی تو وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ تھے اور وہ عموما ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ رپورٹ مثبت آنے پر ایم پی اے پریشان ہوگئے تھے اور خود کو باقی دوستوں سے الگ کرکے گھر چلے گئے تھے جہاں انہوں نے خود کو قرنطینہ کردیا تھا۔

افسر خان نے تصدیق کی کہ انہوں نے دیگر پارٹی رہنماوں کے ہمراہ اپنے نمونے این آئی ایچ بھیجوائے تھے جس کی رپورٹ منفی آئی ہے۔

جب ان سے خیبر میڈیکل یونیورسٹی اور این آئی ایچ کی رپورٹس میں تضاد سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی لیبارٹری کی رپورٹس درست نہ ہوں۔ تاہم یہ فیصلہ ڈپٹی کمشنر مردان نے کرنا ہے کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے کرائے گئے باقی ٹیسٹ کس قدر مستند ہیں۔

Back to top button