خبریںکورونا

"یقین نہیں تھا کہ ہم گھر زندہ جائیں گے"

ہم نے ملتان تبلیغی مرکز میں 27دن قرنطینہ میں گزارے، یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم زندہ واپس گھر پہنچ جائیں گے یا نہیں۔ دل کو یہی تسلی دیتے تھے کہ چلو اللہ کے راستے میں ہیں اور اگرکرونا سے موت آئی تو ڈبل شہادت ہوگی۔

 ہر ہفتے محکمہ صحت کی ٹیم آتی اور تبلیغی جماعت کے ارکان کا سیمپلز لیکر جاتی جن کا رزلٹ منفی آتھا ان کو گھروں کو روانہ کرتے اور جن کا مثبت آتا ان کو آئسولیشن میں لے جاتے۔  میں اپنی باری کے انتظار میں تھا اور اس انتظار اور ٹینشن کی وجہ سے میرا وزن دو کلو گرام کم ہو گیا تھا ۔ جب میرا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا پھر تو ڈر اوربھی بڑھ گیا۔ ایک موقع پر سوچا کہ آج آخری دن ہے لیکن دل میں تسلی ہوتی کہ چلو اگر موت آجائے تو اللہ کے راستے میں ہیں۔ گھر سے میں چالیس دن (چلہ) کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ گیا تھا لیکن اس بیچ میں 67دن گزر گئے۔ قرنطینہ میں گزارے ہوئے دن میرے زندگی کے سب سے مشکل دن تھے ۔

ہدایت اللہ کا تعلق اپر دیر کے علاقے جبر سے ہے اور وہ ہرسال چالیس دن (چلہ) تبلیغی جماعت کے ساتھ لگاتے ہیں رواں سال فروری کے مہینے وہ اپنے گاوں کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ چالیس دن تبلیغ کے لیے ملتان گئے تھے ابھی ان کے تیس دن ہی ہوئے تھے کہ کرونا وائرس کی وباء آگئی اور مقامی انتظامیہ نے ان کو ملتان تبلیغی مرکز میں قرنطینہ کیا ۔

ہدایت اللہ نے بتایا کہ اس مرکز میں پانچ ہزار سے زائد تبلیغی جماعت کے لوگ تھے اور ہم سب ایک ہی جگہ سوتے ایک ہی جگہ کھانا کھاتے لیکن مرکز سے باہر جانے نہیں دیتے۔ ہفتے میں ایک دن محکمہ صحت کا عملہ آتا اور باری باری تبلیغی جماعت کے ارکان کا ٹیسٹ سیمپل لیتے ۔ میرا بھی دو دفعہ سیمپل لیا گیا۔ ایک دفعہ تو رزلٹ نہیں آیا ٹیسٹ میں کچھ مسلہ تھا لیکن دوبارہ جب سیمپل دیا تو مثبت آیا ۔ ہمارے جماعت کے دو تین اورساتھیوں کا رزلٹ بھی مثبت آیا توان کو اورمجھے آئیسولیشن وارڈ منتقل کردیا۔

 ملتان انتظامیہ اور تبلیغی مرکز کے زمہ داران نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ ملتان کے ضلعی انتظامیہ کے افسران آتے اور ہماراحال احوال پوچھتے ہمارے ساتھ کچھ غیر ملکی مہمان بھی تھے ان سب کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن وباء کی وجہ سے ہم سب بہت پریشان تھے، ہمارے ساتھ ہمارے گھر والے بھی پریشان تھے کہ یہ کب آئینگے ہم جب فون پر رابطہ کرتے تو بس رونا دونا ہی ہوتا گاوں میں یہ افواہیں بھی پھیلی ہوئی تھیں کہ ہسپتالوں میں لوگوں کو زہر کی انجکشن لگاتے ہیں جو ہمارے گھر والوں کی پریشانی میں مزید اضافے کا سبب بنتی تھیں۔

صحت یاب ہوکر جب گھر پہنچے تو اکثر گھر والے اور محلے کے دوست ڈرتے تھے کہ کہیں اس کی وجہ سے کرونا وائرس منتقل نہ ہوجائے تو اکثر دوست نہیں ملتے یہ سب دیکھ  کرکچھ عجیب سا لگ رہا تھا کہ ہم پہلے جب تبلیغ سے آتے تو لوگ ہمارے استقبال کرتے اور ہمارے ساتھ گرم جوشی سے دعا سلام کرتے ، ہمارے گھر تشریف لاتے ہمارا حال احوال پوچھتے لیکن اس دفعہ لوگ قریب نہیں اتے تھے ۔

کروناوائرس کی وباء جب پہلی بارپاکستان آئی تو زیادہ تر لوگ تبلیغی جماعت کو موردالزام ٹھہراتے کہ ان کی وجہ سے  یہ مرض پھیل رہا ہے۔  جس کی وجہ سے چھ ماہ تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں معطل رہی اور ملک بھر کے تمام تبلیغی مراکز بند رہے ۔ پاکستان میں دعوت تبلیغی جماعت کے سب سے بڑے مرکزہ رائیونڈ سے بھی ہدایات جاری ہوئے تھے کہ تمام مراکز اپنے سرگرمیاں معطل کریں جتنے جماعتیں تشکیل ہوئے ہیں ان کو گھروں کو واپس کردیں۔

 دیر بالا میں صاحب آباد مرکز میں بھی چھ ماہ شب جمعہ کے بیانات اور دیگر سرگرمیوں پر مکمل طور پر پابندی رہی تبلیغی مرکز کے زمہ داران خود یہ حکم جاری کرتے کہ شب جمعہ کے لیے مرکز تشریف نہ لائے اور مین گیٹ پر پہرہ دیتے اور کسی کو مرکزکے اندر نہیں جانے دیتے اور حکومت کے تمام ہدایات پر عمل کرتے تھے ۔ صاحب آباد مرکز کے امیر کے مطابق کروناوائرس جس کی وجہ سے جیسے کہ دیگر شعبے اور معیشت کو نقصان پہنچا اس طرح تبلیغ جماعت کے سرگرمیوں کو بھی بہت بڑا نقصان ہوا۔

 انہوں نے بتایا کہ ہمارے مرکز سے ہر سال سینکڑوں جماعت چالیس دن (چلہ) کے لیے جاتے تھے اور جو بیرون ممالک بھی جاتے تھے  یہ سب رہ گئے یہ پہلی دفعہ ہوا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے تبلیغی جماعت کے سرگرمیاں پور ے پاکستان میں ایک ساتھ معطل رہی حالانکہ اس سے پہلے کچھ علاقوں  میں پابندی کا سامنا ہوا ہے لیکن اسطرح ایک ساتھ مراکز کبھی بند نہیں ہوئے ہمارا سارا ٹائم ٹیبل متاثر ہوا بعض لوگوں کو یہ نقصان نہیں لگتا کیوں کہ یہ دنیا کی نہیں آخرت کی فکربھی ہے۔ لیکن یہ سب سے بڑا نقصان ہوا ہے ۔

تبلیغی جماعت کی ابتداء سب سے پہلے 1926 یا 1927 میں ہندوستان سے ہوئی جہاں مولانا محمد الیاس نے اس کام کی بنیاد رکھی۔ ابتداء میں مولانا محمد الیاس نے دین کے کام کا آغاز دہلی کے مضافات میں آباد میواتی باشندے سے کیا لیکن کچھ عرصہ بعد انھیں محسوس ہوا کہ اس طریقہ کار کے تحت ادارے تو وجود میں آرہے ہیں لیکن اچھے مبلغ پیدا نہیں ہورہے جو دوسروں کو دین کی تعلیم دے سکے ۔ اس وجہ سے انہوں نے طریقہ کارتبدیل کیا اور تبلیغ کاکام شروع کر دیا اسطرح دہلی کے قریب نظام الدین علاقے میں باقاعدہ دعوت تبلیغ کا آغاز کر دیا ۔

تبلیغی مرکز صاحب آباد کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کہ تقریبا دو سو ممالک میں دعوت تبلیغ کاکام ہو رہا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق تبلیغ سے دس کروڑ سے زائد افراد منسلک ہیں ۔ یہ جماعت دنیا بھر میں سیاسی لسانی برتری سے پاک مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت سمجھی جاتی ہیں ۔ تبلیغی جماعت کا پہلا اجتماع 1941 میں انڈیا میں ہوا جس میں تقریبا 25ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی ۔ 1940کے عشرے تک یہ جماعت غیر منقسم ہندوستان تک محدود رہی لیکن پاکستان بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس جماعت نے تیزی سے ترقی کی اور اس طرح یہ تحریک پوری دنیا تک پھیل گئی ۔ اس جماعت میں اکثریت ارکان کا تعلق پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہیں ،ہرسال دعوت تبلیغ کا بڑا اجتماع بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جبکہ رائیونڈ میں بھی ہرسال سالانہ اجتماع کا اہتمام ہوتا ہے جس کو اب زیادہ لوگوں کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم کیا ایک سال ملک کے ایک حصے کے لوگ شرکت کرتے اور دوسرے سال ملک کے دوسرے صوبوں کے لوگ شریک ہو جاتے ہیں۔

تبلیغی جماعت بغیر کسی اشتہار یا تشہیر کے پرامن طریقے سے اپنا کام کرتی ہے اور دین کی دعوت گھر گھر تک پہنچاتے اس کے لیے تبلیغی جماعت کے بعض اراکین نے تو اپنی پوری زندگی وقف کردی ہے۔

اب کروناوائرس وباء کی دوسری لہر شروع ہونے سے پہلے جس طرح تعلیمی ادارے کھل گئے سیاحتی مقام کھول دی گی اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہوگئی تو حکومت کی طرف اورمرکزی مرکز رائیونڈ کی طرف سے تمام مراکز میں ایس او پیز کے تحت دوبارہ سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ صاحب آباد مرکز دیر بالا میں بھی دعوت کی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوگئی ہیں تاہم اس دفعہ شب جمعہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا تاکہ زیادہ رش نہ بنے اور ایس او پیز پر بھی عمل درامد کئے جائے ۔

Back to top button