32سالہ ابرار کورونا سے متاثرہ ان 308 مریضوں میں سے ہے جن کا تعلق ضلع ملاکنڈ سے ہے۔ابرار سوات کے ایک نجی بینک میں ملازم ہے اور اپنے ایک دوست (جو سوات کے دوسرے نجی بینک میں ملازم ہے) کے ساتھ گاڑی میں سوات گیا تھا ۔ابرار کے مطابق دو دن بعد جسم درد کرنے لگا اور بخار بھی تھا انجکشن لگوایا لیکن ٹھیک نہیں ہورہا تھا۔شام کو پتہ چلا کے اس دوست کو کرونا ہوگیا ہے جس کے ساتھ سوات گیا تھا دو دن پہلے۔صبح ڈی ایچ کیو بٹ خیلہ ایمرجنسی گیا تو ڈاکٹروں کے ناروا سلوک نے سخت پریشان کیا۔ڈاکٹروں کو بتایا کہ میں تو کوئی خودکش نہیں ،آپ لوگ اس طرح حرکات کررہے ہو۔حالانکہ ڈاکٹروں نے حفاظتی کیٹس پہنے بھی تھے۔وہاں سے نکلا اور اس دوست کو فون کیا جو ڈی ایچ کیو میں ملازم ہے،اُس کو آگاہ کیا تو اس نے نئی بلڈنگ میں آنے کو کہا جہاں ٹیسٹ کیلئے نمونے لئے جارہے تھے۔دو دن بعد رزلٹ آیا جو پازٹیوں تھا لیکن بیوی اور چھ سالہ بچے کے پازٹیو ٹیسٹ نے زہنی مریض بنا دیا۔
ائسولیشن سنٹر کیوں نہیں گئے؟ اس سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ میرا دوست وہاں موجود تھا اس نے بتایا کہ یہاں سارے ایک کمرے میں بہت سے مریض ہے اور سب کیلئے مشترکہ طور پر ایک ہی واش روم ہے اس لئے گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔لیکن اس فیصلے تک میرے بیوی اور بچے کا رزلٹ نہیں آیا تھا۔دو دوفعہ ضلع انتظامیاں کی طرف سے کچھ دالیں، شربت وغیرہ آیا تھا۔ ڈاکٹر لیاقت جو خود کرونا وائرس سے متاثر تھا اور پشاور میں ائسولیٹ تھا اس نے دن میں دو دو دفعہ فون کیا اور حوصلہ دیتا تھا ۔باقی یونین کونسل کے سطح پر جو ڈاکٹر ادریس بھی ملنے آتا تھا۔
حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں میڈیکل افیسر
27سالہ ڈاکٹر لیاقت جن کا تعلق ضلع ملاکنڈ سے ہے اور وہ بھی کرونا سے متاثرہ ڈاکٹرز میں سے ایک تھے۔ڈاکٹر لیاقت کے مطابق حیات آباد میڈیکل کمپلکس آئسولیشن وارڈ میں سات دن ڈیوٹی کی تو اسی دن ڈاکٹر جاوید شہید ہوگیا۔اس کا جنازہ بھی پڑھا لیکن میں ٹھیک تھا۔ ڈیوٹی کے بعد 14 دن کیلئے ویسے قرنطینہ ہونا تھا اور پانچوں دن تکالیف شروع ہوگئی۔چونکہ میں آئسولیشن وارڈ میں ڈیوٹی کی تھی اس لئے مجھے ہر سٹیج کا علم ہوتا تھا۔ میں ایکسرے کرانے کیلئے گیا تو عملے کا رویہ غیر مہذب تھا۔ ۔ڈی ایچ کیوں بٹ خیلہ میں ٹیکنیشن ٹیسٹ کیلئے نمونے لیتا ہے لیکن ایچ ایم سی میں ڈاکٹرز سامپل لیتے ہیں۔اور اسطرح کا رویہ آپ ڈاکٹرز سے نہیں کرسکتےاس لئے میں سخت پریشان ہوا۔پھر ایم ڈی “ایچ ایم سی” ڈاکٹر شہزاد سے رابطہ کیا تو وہ خود آیا اور میرا ٹیسٹ ہوگیا۔ڈاکٹر شہزاد نے حوصلہ دیا اور آخری دن تک اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا۔ڈاکٹر لیاقت کا کہنا تھا کہ میں باقاعدگی کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کرتا تھا۔
جس کی وجہ سے مجھے لوگوں کے بارے میں پتہ چلتا تھا کہ کون کون اس وائرس سے متاثر ہوا ہے۔گاؤں کے ابرار سمیت تین جونیئرر ڈاکٹر (جو کرونا سے متاثر تھے ) کے ساتھ رابطے میں تھے اور جو میڈسن موجود تھے وہ اور حوصلہ دیتا تھا۔ایک دن میں مجھے سانس کا مسلہ شروع ہوگیا اس وقت لگا کہ کہانی اس وقت تک لکھی ہوئی ہے۔اسی دوران ابرار نے فون کیا اور اس نے کہا کہ میں پشاور آرہا ہوں میرے حالات ٹھیک نہیں۔اس کو حوصلہ دیا لیکن اس کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ میں خود کس اذیت سے گزر رہا ہو۔حلانکہ میں بات بھی مشکل سے کر رہا تھا۔مشکل وقت تھا گزر گیا۔اب کچھ دنوں میں پلازمہ ڈونیٹ کرونگا۔جس سے کسی انسان کی زندگی آسان ہوجائے گی۔ یہ تھی کرونا سے متاثرہ دو جوانوں کی کہانی جو کرونا وائرس سے لڑ کر اپنی زندگی میں واپس آگئے تھے۔
ڈی ایچ او ملاکنڈ ڈاکٹر وحید گل بھی کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے میں ایک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا اب ڈینگی،ایڈز اور ملیریا کی طرح اس دنیا میں رہے گی۔لیکن اس ویکسین بننے تک اس سے بچ کے رہنا ہوگا۔ضلع ملاکنڈ میں ٹیسٹ کم کیوں ہوتے ہیں اس کے جواب میں ڈاکٹر وحید گل کا کہنا تھا کہ آج ہم نے ڈیمانڈ 2000 ٹیسٹ کیٹس کیلئے کیا لیکن ہمیں 200 ملی ہیں کیونکہ صوبے کے پاس خود کمی کا سامنا ہے۔اس وجہ سے ہم آگے ٹیسٹ کم کرتے ہیں۔
جس ڈاکٹر وحید گل سے سوال کیا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق 29 فیصد ٹیسٹ پازٹیو آرہے ہیں اگر روزانہ 1000 ,1000 ٹیسٹ شروع ہوجائے تو 29 فیصد ٹیسٹ پازٹیو آئنگے؟جواب میں اس کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس نے پورے معاشرے کو گھیر لیا ہے لیکن لوگوں کا ایمونیٹی سسٹم مضبوط ہے جس کی وجہ سے اس کو پتہ چل رہا۔ اگر روزانہ ہزار ٹیسٹ شروع ہوگیا تو لوگ مینٹلی ڈپریشن کا شکار ہوجائنگے اس طرح معاشرے میں کرونا پھیل گیا ہے۔زیادہ ٹیسٹ تو زیادہ کیسسز ہونگے۔یہ ان لوگوں کے ٹیسٹ ہیں جو پازٹیوں کے کنٹیٹ میں ہے۔
اس وقت تک ڈی سی ملاکنڈ کے دفتر سے جاری کردہ معلومات کے مطابق ضلع ملاکنڈ میں کل 1137 ٹیسٹ ہوئے جس میں 308 پازٹیو ،51 کا رزلٹ نہیں آیا ،جبکہ 113 افراد صحتیاب ہوگئے ہیں جبکہ آٹھ افراد شہید ہوگئے ہیں۔دستیاب معلومات کے مطابق اوسطاً 28 فیصد ٹیسٹ پازٹیو آرہے ہیں جو دس دن پہلے 20 فیصد تھا۔یاد رہے کہ جنس کے حساب سے ضلاع ملاکنڈ میں 71 مرد جبکہ 29 فیصد خواتین کرونا وائرس سے متاثر ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا سے متاثرہ مریضوں میں 72 فیصد مرد جبکہ 28 فیصد خواتین ہیں۔ جبکہ اگر عمر کے لحاظ سے متاثرہ افراد کا جائزہ لیا جائے تو 31 سے 45 سال کی عمر کے افراد سب سے ذیادہ متاثر ہورہے ہیں جبکہ 1 سے 15 سال یعنی بچوں کے متاثر ہونے کی شرع 12 فیصد ہے۔